سینئر صحافی اور ممتاز کالم نگار شاعر برادرم سعید آسی نے راجا نیر کی زبردست دوستی کی معرفت گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ فریدیہ کالج پاکپتن کے پروفیسر نوید عاجز کی مرتب کردہ کتاب ’’سوچ دا پتن‘‘ کے حوالے سے اپنی پرانی یادیں تازہ کی ہیں۔ میں نے بھی میانوالی کے حوالے سے ایک کتاب ’’بازگشت‘‘ مرتب کی تھی۔ اس میں بہت سی یادیں ہیں جو کبھی کبھی اپنے پڑھنے والوں کی یادوں میں شامل کرنا چاہئیں۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے کہا تھا
بے کنار خطوں کے بے شمار یادوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں ملا دوں گا
یہ کالم پڑھیں اور اپنی اپنی یادوں اور خوابوں میں کھو جائیں۔
یہ کالم بڑا ضروری ہے۔ کبھی کبھی کر لینا چاہئے۔ اس کالم میں بہت کچھ ہے مگر سعید آسی کی ایک ایسی نظم کے کچھ اشعار شامل کئے گئے ہیں جو ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ میری گزارش ہے کہ وہ یہ نظم اگلی کتاب میں ضرور شامل کریں۔ اس نظم کے لئے قومی شاعر حفیظ جالندھری نے چار صفحوں پر ایک تعریفی مراسلہ لکھ کر سعید آسی کو بھیجا تھا۔ وہ مراسلہ بھی شائع ہونا چاہئے۔
ایک معزز کا فرمان
ہم کو دے گا یہ انسان
روٹی کپڑا اور مکان
یہ منہ اور مسور کی دال
بھٹو جئے ہزاروں سال
آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ یا دھوکہ سنائی دیتا ہے۔ سیاستدان بھٹو بھی ہو تو وہ جھوٹے وعدے لوگوں سے کرتا ہے اور لوگ انہیں مان لیتے ہیں۔ اس نعرے کے صلے میں بھٹو کا بیٹا مرتضیٰ بھٹو اس کی بہن بینظیر بھٹو کی حکومت میں قتل ہوا اور اسے پولیس نے دن دیہاڑے قتل کیا اس کے مقدمے کا کچھ نہیں پتہ چلا۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو شہید ہوئی۔ جس کے صلے میں زرداری صاحب صدر بنے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پانچ سال تک بھٹو کے داماد صدر رہے۔ پارلیمانی نظام کے بااختیار صدر مگر شہید بی بی کے مقدمے اور قاتلوں کا پتہ نہ چلا۔ ایک ٹانگے والے کی بیوی بھی قتل ہو جائے تو وہ چین سے نہیں جی سکتا۔ زرداری صاحب کو شہید بی بی کے قاتلوں کا پتہ ہے مگر وہ بتاتے نہیں۔ اپنے آپ کو تو بتاتے ہوں گے۔ بلاول کو بھی نہیںبتاتے مگر اسے پتہ چل گیا ہے۔ اسے زرداری صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کا نام دے دیا ہے۔ ہمیشہ بھٹوز ہی قتل کئے جاتے ہیں۔ میرا مشورہ دوبارہ بلاول سے ہے کہ وہ پاکستان نہ آئے۔ اس کی والدہ نے پاکستان واپس آ کے کیا پایا تھا؟ وہ اس واقعے سے عبرت پکڑیں۔
عمران خان بھی تبدیلی کا نعرہ لے کے اسی طرح آیا ہے جس طرح بھٹو آیا تھا۔ پھر اس کا کیا ہوا؟ عمران خان کا کیا ہو گا؟ اللہ اسے سلامت رکھے۔ تبدیلی کی بجائے ریحام خان آ گئی ہے۔ اتنی فکر کی بات نہیں ہے مگر میرا یقین کہتا ہے اس کے باوجود کہ میں عمران کے خلاف تنقیدی بات کرتا ہوں۔ تنقید اور تعریف میں فرق نہیں ہوتا۔ دونوں اصلاح کے لئے ہوتی ہیں مگر ہمارے کالم نگار اسے کاروبار کی طرح سمجھتے ہیں۔ کاروباری سیاست کی طرح کاروباری صحافت؟ عمران کچھ نہ کچھ کرے گا۔ لوگوں کے لئے مگر شاید اسے اس کی اجازت نہ ملے۔ جنرل راحیل سے امیدیں ہیں۔ وہ براہ راست سیاست میں نہ آئے مگر سیاست کو پاکستانی سیاست بنا دے؟
سعید آسی نے پاکپتن کاذکر کیا ہے تو بہت بڑے صوفی اور شاعر بابا فریدنے پتن کو پاک پتن بنا دیا۔ نجانے کون ’’پاکستان‘‘ کو پاکستان بنائے گا؟ پتن پانی کے تالاب نما جگہ کو کہتے ہیں جہاں دوشیزائیں پانی بھرتی تھیں اور رومان و ایمان کی کئی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ میں ارمان کو بھی ایمان سمجھتا ہوں۔ عشق کی ایک صورت ارمان بھی ہے۔ ہمیں بے عشق سیاستدانوں اور حکمرانوں نے مارا ہے۔میرے نزدیک محبت بھی ایمان ہے۔ جو محبت نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ انسان نہیں ہو سکتا۔
ہندی میں بیوی کو پتنی کہتے ہیں۔ یہ کتنا رومانی لفظ ہے۔ جس میں ایک آئیڈیل بیوی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کوک شاستر کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جرمن خاتون کے بعد ہندی خاتون باوقار اور اپنے مرد کی وفادار ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے ایم ڈی تاثیر کو بیرون ملک شادی کرنے کے لئے جرمن خاتون سے شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر اس نے مسز ایلس فیض کی بہن سے شادی کی۔ وہ بدنصیب نکلا۔
بھارت کے ایک ہی سفر میں ایک بہت گریس فل خوبصورت اور باوقار ہندی خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ پتنی کا کیا مطلب ہے؟ تو میں نے حیرت سے اسے دوبارہ دیکھا۔ بھارت میں اکثر خواتین ایسی کم صورت ہوتی ہیں کہ انہیں دوبارہ دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں ہندی اور پتنی کو سمجھتا نہیں ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ پتنی پتن سے ہے جہاں پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ اور ’’باتیں‘‘ بھی ہوتی تھیں۔ پھر میں نے پنجابی کا ایک مصرعہ پڑھا اور اسے ترجمہ بھی سنایا جبکہ پنجابی کے کئی جملوں کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔
رب نے کرایا ساڈا پتناں تے میل وے