چیت جانے اوروساکھ کے آنے کا مزہ ہرے کھیتوں کو سونا رنگ اوڑھتے لمحوں کو دیکھتے ہوئے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نکھری دھوپ اور رنگوں کی پھلواریاں فضا میں دھند اور ملے جلے موسموں کی بے اعتباریوں کا سینہ چیرتی ہوئی اپنے ہونے کا احساس دلانے لگتی ہیں۔ شہروں کے رنگ اور دیہی راستوں میں کھلیانوں میں ہریالی سے سنہرے ہوتے ہوئے خوشوں کی خوشبوئوں کی روح تک اترنے کی لذت کچھ وہی لوگ جانتے ہیں جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ چند ہفتوں بعد انہوں نے فصلوں کی کٹائی کرنی ہے اور کھپے بھرنے دل و جان لگا کر سال بھر کا اناج جمع کرنا ہے۔ اور پھر ان چھوٹے کسانوں کی حساب دانیوں اور ’’ملن ورتن‘‘ کا اندازہ بھی کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کٹائی کے دنوں میں کسی بڑے زمیندار کے مربعوں سے جڑے رہنا پسند کرتے تاکہ انکی محنت کا بھائو بھی بھلا لگ سکے۔ کہتے ہیں ترقی آتی ہے تو پچھلی کئی تہذیبیں، رکھ رکھائو اور ملن ورتن اپنے ساتھ بہالے جاتی ہے۔ ہمارے زرعی ملک میں اناج کی فی ایکڑ پیدوار میں کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، افرادی قوت اگرچہ بہت وافر سہی لیکن کٹائی کے ترقی یافتہ طریقوں سے ہوسکتا ہے آنیوالے سالوں میں بیلوں کی جگہ جو ٹریکٹر آچکے اب انسانی ہاتھوں میں درانتی کی جگہ مشینیں ہمارے ہاں بھی عام ہو جائیں۔ پھر بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی غلامی بذریعہ مزدوری کا پلان بنانے والے والدین اپنی سکہ بند دینی سوچ کہ، آنیوالا اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے‘‘ والی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ کہ رزق دراصل ہے کیا؟ رزق وہ نہیں جو ان پن توے پر بگھار کے ماں منہ میں دیتی ہے۔ رزق وہ ہے جو زمین کی ہریالی کو سنہرے موسموں میں بدلنے سے حاصل ہو۔ ایسی تبدیلی کو ڈھارس بناتے ہوئے پچھلی کئی حکومتوں کی طرح میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کی ترقی کی کنجی علم کے پھیلائو ہی کو گردانا ہے اور اس کے اقرار میں اخبارات کو خوب رنگین کیا ہے۔اخبارات میں تین تین چہروں پر غازہ ملے درشنوں نے سکولوں کیلئے عمارتیں ہی مہیا نہ ہونے دیں۔ اگر کہیں کسی روشنی سکول کے نصیب میں کوئی احاطہ آہی گیا تو وہ کسی سرمایہ دار کا گودام بنایا پھر بڑے زمیندار کے مویشیوں کا باڑہ۔ ہوائی سفر کرنیوالوں کو پنجاب کی کچی پکی پگڈنڈیوں کا کیا علم؟ جن لوگوں نے پچھلی تقریباً پچاس دھائیاں گندم کے خوشوں کو سنہری ہوتے نہیں بلکہ لوہے کو بھٹی میں پکا پکا کر کندن ہوتے دیکھا ہے اور اس خام لوہے سے کندن تک کے سفر نے اس خاندان کو کیا رنگ لگائے ہیں اسکا احساس پاکستان بھر کو ہے۔ لیکن میاں صاحب کی اس سوچ کو بھی غلط نہیں کہہ سکتے کہ سڑکیں معاشی ترقی و خوشحالی کا زینہ ہے۔ کھیت سے منڈی تک کا راستہ کاشتکاروں اور چھوٹے کسانوں کی محنت اور آس کو زندہ رکھنا ہے صرف اس وقت تک جب تک کہ اناج بر وقت منڈیوں اور ملوں تک پہنچ جائے۔ کسان کی محنت کو رنگ دینے کیلئے ہی پنجاب حکومت نے ’’سوکھے پینڈے‘‘ دیہی روڈز پروگرام کے تحت پنجاب بھر کے اضلاع میں دو ہزار کلو میٹر سڑکوں کی تعمیرو مرمت کیلئے پندرہ ارب کی خطیر رقم مختص کی ہے بلکہ ضلع قصور کے علاقے صوئے آصل کی آٹھ کلو میٹر سڑک سے منصوبے کا باقاعدہ آغاز بھی کیا اب دیہی سڑکیں بارہ فٹ چوڑی اور چھ چھ فٹ دونوں اطراف سے شولڈز کے ساتھ سمجھئے چوبیس فٹ کی ہو جائیں گی جو بلاشبہ احسن قدم ہوگا لیکن جو لاہور اور قصور کے محل وقوع کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے مال روڈ سے قصور جلدی پہنچا جاسکتا ہے۔ بہ نسبت لاہور بحریہ ٹائون! قصور گویا لاہور کا حصہ ہی ہوتاجا رہا ہے۔ ویسے تو بات پنجاب کی ہو تو اب اصلاحات و تعمیر و ترقی کا آغاز پنجاب کے آخری شہر صادق آباد سے ہونا چاہئے۔ صادق آباد تک کا راستہ سڑکوں کے ذریعے طے کرتے ہوئے پنجاب کے دیہی علاقوں کی فضائوں میں رچے بسے احساس محرومی، حقیقی ترقی سے صدیوں کے فاصلے اور ذہنی تاریکیوں کے جان لیوا آسیب زدہ بگولے، کوئی بھی انسانی ضروریات کا فہم رکھنے والا محسوس کرسکتا ہے۔
محترم خادم اعلیٰ جانتے ہیں ان کے پیارے پنجاب میں ہر روز ہزاروں انسانی روحیں جسم لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لکیر کی فقیری میں غلاموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ٹھنڈے میٹھے سکون باسیوں نے تاریخ میں پڑھا ہو گا کہ پیٹ کی بھوک و اذیت کسی بھی نازک لمحے میں بارودبن سکتی ہے! نصیب والوں نے کبھی پسینے کی باس کو گندم کے خوشوں میں مدغم ہوتے نہیں دیکھا۔ ہوسکتا ہے کبھی دیکھ لیں تو انہیں گندم سے پسینے کی باس آنے لگے اور وہ صرف پھل ہی کھائیں گندم سے ہاتھ کھینچنے والے کھیتوں کھلیانوں پر بلڈوزر پھیر کر عمارتیں بھی کھڑی کرسکتے ہیں کیونکہ علم کے بغیر ٹیکنالوجی تو پاکستان کے کونے کونے میں پھیل ہی چکی ہے
یقین کیجئے ہم ہی خادم اعلیٰ کے خوابوں کی دہی تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں جو وہ سوچتے ہیں لیکن محکوم طبقے نے اگر وسائل میں اپنا انسانی جمہوری حصہ مانگ لیا تو شاید بڑے شہروں کے تمام اور ہیڈ اور انڈر پاس لپیٹ میں آجائیں، ایسے میں سوکھے پینڈے کیلئے اذہان و سوچ کے بند کیواڑوں سے زبردستی کے لگائے تالے کھولنا ہوں گے۔ انکے حصول علم کے رستوں سے تمام سپیڈ بریکر ہٹانے ہوں گے کیونکہ کچی بنیادوں پر کبھی فلک بوس عمارات کھڑی نہیں ہوتیں۔ پنجاب کے مضافات میں ان گنت اوکھے پینڈے کاٹنا ان کمزور کم حوصلہ لوگوں کے بس کا روگ نہیں یہ بے چارے تو اپنے بچے کو آٹھویں کلاس میں پاس ہونے کے بعد نویں جماعت کی کتابوں کیلئے بیاج پر رقم لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انکے مشکل راستوں کیلئے آسان اور میٹھے لفظوں کی برسات انکے خوف اور کم مائیگی سے بنجر ہوتے ذہنوں کو سیراب نہیں کرسکتی ۔ خادم اعلیٰ محترم کو اس کیلئے مکمل رفاہی ریاست کے قیام کیلئے بنک خریدنے والوں کی جیبوں میں اپنی رقوم ڈالنے کی بجائے اپنا تن من نہیں بلکہ دور دیس میں رکھا دھن ان پر نچھاور کرنا پڑیگا۔ یہ پودا آپ لگا لیجئے بہار آنے والی ہے پیڑ تناور ہو جائینگے چھائوں بڑھے گی تو اس چھائوں تلے بیٹھنے والے دعائیںدیں گے۔