٭ حضرت عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس تشریف لائے تو وہ اس وقت یہ آیت مبارکہ پڑھ رہا تھا”تمہیں مال کی زیادہ طلبی نے غافل کررکھا ،یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھ لیا“۔(التکاثر)تو آپ نے ارشادفرمایا:ابن آدم کہتا ہے میرا مال، میرا مال کیا وہ سارے مال کا مالک ہے؟(یاد رکھو)جو تو نے صدقہ کردیا وہ تو محفوظ ہوگا، جو پہن لیا وہ پرانا ہوگیا اورجو کھالیا وہ فنا کردیا ۔(صحیح مسلم،ترمذی ، نسائی ، موطاءامام مالک)
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ، ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی خواہش جوان رہتی ہے ، زیادہ دولت کی حرص، اوردرازیءعمر کی آرزو۔(مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، موطاءامام مالک)
٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم نے ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس مال ودولت کی دووادیاں ہوں تو وہ تیسری کا طلب گار رہے گا، اس کے پیٹ کو (قبر کی)مٹی ہی بھر سکتی ہے اوراللہ تبارک وتعالیٰ جس پر چاہے نظر کرم اورمہربان فرمادیتا ہے(اورقناعت شکم سیری ، اوراطمینان قلب کی دولت بخشش دیتا ہے) (بخاری، مسلم، ابوداﺅد، صحیح ابو عوانہ)سیوطی فرماتے ہیں یہ حدیث متواتر ہے جسے 15 صحابہ کرام نے روایت فرمایا ہے۔
٭حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ، دوبھوکے بھیڑے جنہیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ اتنا فساد نہیں کرتے جتنا ایک مسلمان اپنے حسب، نسب اورمال (ودولت)کی محبت میں کرگزرتا ہے۔(بیہقی)”طبرانی نے اسی روایت کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔“
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خط کھینچے اورایک خط ان سے الگ ایک جانب کھینچا اورارشادفرمایا:تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟یہ مثالِ کثرت سے آرزو اورحرص کرنے والے انسان کی ہے اوریہ امید کا خط ہے کہ وہ امید (وانتظار)میں (ہی)رہتا ہے کہ اچانک اسے موت آجاتی ہے۔ (مستدرک ، دیلمی ، الجامع الصغیر :سیوطی)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جس انسان کو اللہ رب العزت نے ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا دیا (اوراگر اس عمر میں بھی سچے دل سے تائب ہوجائے تو )تو وہ اس عمر میں (بھی ) اس کی معذرت فرمالے گا۔(مستدرک ، دیلمی ، سیوطی)