جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب، یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے، کچھ ایسا ہی معاملہ سیاست ، انتخابات اور اسکے بعد ہونےوالے واقعات میں بھی ہوتا ہے۔ مغرب یعنی امریکہ اور یورپ وغیرہ میں الیکشن کے بعدہارنے والی پارٹیوں کی طرف سے شکست تسلیم کرنے اور جیتنے والوں کو مبارکباد دینے کا رواج ہے۔ جیسے ہی نتیجہ آتا ہے، ہارنے والا لیڈر جیتنے والے کو خود ٹیلیفون کرکے مبارکباد اور نیک خواہشات کیساتھ ساتھ اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کرتا ہے۔ مشرق اور خصوصاً پاکستان میں البتہ معاملہ اسکے برعکس ہے، ہارنے والا دھاندلی کے الزامات لگا تا ہے اور بعض دفعہ تو احتجاجی تحریک بھی شروع کر دیتا ہے، ہماری تاریخ کے تقریباً تمام انتخابات میں ایسا ہی ہوا ہے۔ 11 مئی 2013 کو ہونیوالے عام انتخابات کو منعقد ہوئے دو سال ہونےوالے ہیں لیکن اس کے اوپر اٹھنے والے سوالات اور الزامات ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے منفرد الیکشن ہیں جس میں جیتنے اور ہارنے والی تمام پارٹیوں کو نتائج پر تحفظات ہیں۔ اس الیکشن کے نتیجہ میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھاری اکثریت سے وفاق اور پنجاب میں،سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف جبکہ بلوچستان میں ملی جلی مخلوط حکومت نون لیگ کی حمائت سے قائم ہوئیں۔ کراچی میں ایک بار پھر میدان ایم کیو ایم کے ہاتھ رہا۔ ان نتائج کیخلاف پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ احتجاج کیا ہے جس میں اسلام آباد میں واقع ریڈ زون میں 126 دنوں تک دیا گیا دھرنا بھی شامل ہے۔پی ٹی آئی کا بنیادی مطالبہ جوڈیشل کمیشن کا قیام تھا جو کئی مہینوں تک دباﺅ برقرار رکھنے کی وجہ سے مانا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل بھی دیا جا چکاہے جس نے 16 اپریل کو پہلی سماعت کی۔ ان ججوں میں چیف جسٹس ناصر الملک، جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس امیر ہانی مسلم شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ اس کمیشن میں پنجا ب کی نمائندگی نہیں ہے، دو معزز جج صاحبان کا تعلق خیبر پختون خوا اور ایک کا سندھ سے ہے۔ کچھ لوگ دور کی یہ کوڑی بھی لاتے ہیں کہ پنجاب کی نمائندگی کا نہ ہونا عقلمند کیلئے اشارے جیسا سمجھنا چاہئے۔ میں سازشی تھیوریوں کو اہمیت دینے سے اکثر گریز کرتا ہوں اس لئے میرا خیال ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اسکی کاروائیوں کو صرف قانونی اور آئینی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ جوڈیشل کمیشن میں پیش ہونے والی جماعتوں کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ ہے لیکن اس میں اہم اور سنجیدہ معاملہ صرف نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہے، پیپلز پارٹی سمیت باقی تمام پارٹیوں کی حیثیت بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسی ہے۔ کیا یہ پیپلز پارٹی کیلئے شرمندگی کا مقام نہیں ہے کہ ان کا وکیل جوڈیشل کمیشن کے سامنے کہہ رہا ہو کہ انکی پارٹی کا فوکس صرف حلقہ 124 ہے، ماضی کی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا فوکس سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو جائیگا کچھ سال پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ اسی طرح جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، قاف لیگ، اے این پی، جے یو آئی سمیت دوسری تمام پارٹیوں کا رونا دھونا بھی چند ایک محدود حلقوں کیلئے ہی ہے جن کی اہمیت اور سائز انتخابی عذر داریوں سے زیادہ نہیں اس لئے یہ بات انتہائی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا دارومدار زیادہ تر تحریک انصاف کے پیش کردہ ثبوتوں اور شواہد پر ہو گا۔ اگر عمران خان نے ثابت کر دیا کہ پچھلے دو سال سے وہ ٹھیک شور مچا رہے ہیں تو ملک نئی تبدیلی کی طرف چلا جائیگا اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو انہیں اپنی سیاسی فیس سیونگ کےلئے بہت مشکل جدو جہد کرنی پڑیگی۔
جوڈیشل کمیشن نے اپنی پہلی سماعت میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ دھاندلی کے حوالہ سے اپنے تمام ترثبوت اور شواہد ایک ہفتہ کے اندر جمع کروا دیں۔ کمیشن کا اگلا اجلاس 23 اپریل کو ہوگا جس دن کراچی میں حلقہ 246 کا ضمنی الیکشن بھی ہونے جا رہا ہے۔ اس ضمنی الیکشن کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس دن ملک کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو اپنی اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کا موقع ملے گا اور الیکشن کا نتیجہ جوڈیشل کمیشن سمیت تمام سیاسی معاملات کے مستقبل کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کر یگا۔پہلی سماعت کے بعد جوڈیشل کمیشن کا تاثر ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے 2013 الیکشن کے خلاف شکایات زیادہ تر عمومی نوعیت کی معلوم ہوتی ہیں اور ان الیکشن میں منظم دھاندلی کے شواہد ابھی تک نظر نہیں آتے۔ بہر حال یہ تاثر پہلی سماعت کے بعد کا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پورا ایک ہفتہ موجود ہے کہ وہ عدالت کے اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے منظم دھاندلی کے ثبوت فراہم کرے، صرف اسی صورت میں اسکی طرف سے کئے جانے والے دعوی کا کوئی عملی نتیجہ نکل سکتا ہے۔
گذشتہ سال جب عمران خان نے دھرنا دیا تو کچھ دوستوں کا دھیان یوکرین کے اورنج انقلاب کی طرف جاتا رہا تھا۔ یوکرین میں 21 نومبر 2004 کو الیکشن ہوئے جس میں وکٹر یش چنکو ہارگیا اور وکٹر یانوکووچ جیت گیا تھا۔ ہارنے والے نے دھرنا دے دیا جو 61 دن جاری رہا جس کے دوران ہزاروں لوگ دارالحکومت خیو کے مرکزی میدان میں بیٹھے رہے۔ درمیان میں پرتشدد واقعات بھی ہوئے جن میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ بالآخر یوکرین کی سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا۔ اسکے بعد دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں پہلے ہارا ہوا وکٹر یش چنکو جیت گیا اور جیتا ہوا وکٹر یانوکووچ ہار گیا۔ پاکستان اور یوکرین کے معاملہ میں سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ یوکرین میں وکٹر یش چنکو نے ہارنے کے اگلے دن ہی دھرنا دے دیا تھا اور ایک منٹ کیلئے بھی اسمبلی میں نہیں گیا تھا۔ پاکستان میں عمران خان پہلے اسمبلیوں میں بیٹھے رہے تھے اور تقریباً چودہ ماہ بعد دھرنا شروع کیا۔
جوڈیشل کمیشن اور سپریم کورٹ کو الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا فیصلہ بھی کرنا ہے اور اپنے فیصلہ کے نتیجہ میں ممکنہ طور پر پیش آنیوالے سیاسی مضمرات کو نظر انداز بھی نہیں کرنا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 175 A جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اسکے دائرہ اختیارات کی بہت تفصیل کیساتھ تشریح کرتا ہے۔ اسکی تفصیل میں جائے بغیر فی الحال اتنا کہنا بھی کافی ہو گا کہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی مختلف ایشوز پر کئی بار جوڈیشل کمیشن بن چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ جوڈیشل کمیشن کے بارے میں کون کتنا سنجیدہ ہے اور کون اسے نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن
Apr 19, 2015