پشاور (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عبدالرئوف خان نے کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ صوفی محمد کیخلاف دائر بغاوت کے دو مقدمات عام عدالت میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ان مقدمات میں سے دہشت گردی ایکٹ کی دفعات خارج کرتے ہوئے انہیں سیشن جج سوات کی عدالت میں بھیج دیا جائے۔ واضح رہے صوفی محمد کے خلاف درج مقدمات میں سے کبل میں پولیس تھانے پر حملے کے مقدمے کو پہلے ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر عام عدالت میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ ملزم کے وکیل عادل مجید نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل صوفی محمد پر حکومت کی طرف سے 2009ء میں بغاوت کے دو مقدمے درج کئے گئے تھے جس میں دہشت گردی ایکٹ شامل کیا گیا تھا۔ عدالت نے ملزم کی درخواست منظور کرتے ہوئے دونوں مقدموں سے دہشت گردی ایکٹ ختم کر دیا ہے۔ وکیل صفائی کے مطابق صوفی محمد کیخلاف 13 مقدمے درج تھے جن میں بغاوت اور کبل میں پولیس تھانے پر حملہ کرنے کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ ان 13 میں سے 10 مقدمات میں صوفی محمد پہلے ہی بری ہوچکے ہیں جبکہ تین مقدمے انکے خلاف بدستور زیرالتوا ہیں۔ آن لائن کے مطابق عدالت نے صوفی محمد کو دہشت گردی کے تمام مقدمات سے بری کر دیا گیا ہے۔