روایت ہے کہ ایک رئیس اعظم نے منادی کروا دی کہ اُسکے مرنے کے بعد جو شخص دو دن تک اُسکے ساتھ قبر میں رہے گا وہی اُسکی تمام جائیداد کا وارث ہو گا۔ لیکن کون ہمت کرے۔ بھوک سے تنگ ایک موچی نے سوچا کہ مرا تو وہ پہلے ہی ہو ا ہے کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اُٹھا لے ۔ تنگ دست موچی کیساتھ معاہدہ ہو گیا اور رئیس اعظم کی وفات پر معمول سے زیادہ جگہ قبر کیلئے مختص کی گئی، دو دن کی خورا ک اور پانی اند ر رکھ دئیے گئے اور قبر میں پائپ کے ذریعے اتنا سوراخ رکھ دیا گیا کہ غریب موچی ہوا اور خوارک کی وجہ سے نہ مر جائے۔دو دن بعد قبر کشائی کی گئی ۔موچی باہر نکلا تو رئیس اعظم کے وکلاء نے اُسے مبارک باد دی اور دستاویزی کاروائی کے ذریعے جائیداد اُسکے نام منتقل کر نے کیلئے کہا لیکن موچی نے کانپتے ہاتھوں اور آنکھوں میں آنسوئوں کی بھرما لیے جائیداد لینے سے انکار کر دیا۔ وجہ پوچھنے پر بتلایا کہ وہ تو روزانہ کمائے جانیوالے آٹھ آنے کا حساب نہیں دے سکتا اتنی بڑی جائیداد کا حساب کیسے دے گا۔ شائدوہ کوئی حساب دیکھ چکا تھا۔
ایک طرف دیکھتے ہیں کہ چھوٹے کسان کھیتوں میں کام کرتے اچانک بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ محکمہ مال کا عملہ پیچھے پیچھے اور کسان آگے آگے۔کسان کے بچے اورآس پاس کے لوگ بھاگتے کسان کو ’’ہلا شیری‘‘ دیتے اوراُسکے فرار کی کامیابی کی دعا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ محکمہ مال کے عملہ کی ناکامی کی خواہش اور آس پاس کتے بھی بھونکتے ہوئے کسان کی حمایت اور عملہ کی مخالفت کا عندیہ دے رہے ہوتے ہیں ۔کئی اوقات کئی بوڑھے باپ گھر پر بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک تحصیلداروں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر حوالات میں اُنکے مہمان بنتے تواضع کروا بیٹھتے ہیں کہ اُنکے بیٹے نے چھوٹی صنعت کیلئے لیا گیایوتھ قرضہ واپس نہیں کیا۔آئے دن کئی ’’بابو‘‘ اچانک اپنی سیٹ ہی چھوڑ کر سربازار بھاگتے دکھائی دیتے ہیں کہ بنک عملہ کریڈٹ کارڈ یا پرسنل لون کی ریکوری کیلئے حرکت میں آیا ہوتا ہے، مائیکرو کریڈٹ کے غربت مکائو پروگرام کے ذریعے ’’لاکھوں روپے ‘‘کی بھینس پالنے ،سٹور کھولنے کے کاروباروغیرہ کیلئے حاصل کردہ 10ہزار سے15ہزار روپے کے قرضہ سے نجات کیلئے خواتین گھر کے برتن بیچ کر قرضہ اُتارتی ہیں کہ سماجی تنظیمیں خوبصورت سلائیڈ زپر اپنی کارکردگی کے جھنڈے کچھ یوں گھاڑتی دکھائی دیتی ہیں کہ اُنکی برآمدگی مردوں سے 96%فیصد اور عورتوں سے100%ہے کیونکہ عورتیںمردوں کی طرح گھر سے بھاگ کر جان نہیں بچا سکتیں۔ جبکہ دوسری طرف خاکسار جیسے کئی سر پھر ے لوگوں نے سرکاری دفاتر میں بالائی شلف پر پڑی کئی اہم فائلوں کی تفتیش کیلئے مٹی کیا جھاڑی کہ چوہدریوںجیسی کئی اسمبلییوں نے کئی 14ارب روپے کے قرضے معاف کرتے ہوئے اُن پر پڑی مٹی خود ہی جھاڑ ڈالی۔ جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے!بینک کاروباری ساکھ رکھنے والے حضرات کو آگے آکر نرم شرائط پر مالی قرضے عنایت کرتے اپنے منافع کا بندوبست کرتے ہیں ۔اچانک جھٹکے یا کمی بیشی کیصورت میں کئی ہمدرد اوور ڈرافٹنگ اور بینک گارنٹیاں پل بھر میں منظور فرما دیتے ہیں۔وکلاء اور عدالیتں بھی کسی کاروباری جھٹکے سے بچائو کیلئے اپناجائزحصہ ڈالنے میں بُخل سے کام نہیں لیتی اور اُنکی کمر سیدھی کرنے میں راحت محسوس کرتی ہیں ۔ کاروبار حکومتی یا اپوزیشن کی شخصیت کا ہو تو وارے نیارے۔ ایک مقولہ ہے کہ ایک سانپ اور وہ بھی اُڑنے والا۔پھر تو ڈیوٹی فری SROہوں یا قومی و بین الاقوامی مالی معاہدے،ٹھیکے ہوں یا لائنس اور پرمٹ،نج کاری ہو یا پبلک پرائیویٹ شراکت داریاں سب اچھے لکھاری کے سامنے اُ سکے ہاتھ جوڑے الفاظ کی طرح حاضر۔دوسری طرف تماشائے اہل کرم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چُکنے چُکنے پات ،افسر کا بیٹا افسر ،غلام کا بیٹا غلام، اور کاروباری خاندانوں کے بچوں کی گھیتی میں بھی کاروبار۔بیشک تیر ا اللہ جسے چاہتابے حساب رزق عطا کرتا ہے۔نہ وہ کالا دیکھتا ہے نہ گورا ،نہ مومن نہ کافر، نہ چھوٹا نہ بڑا،نہ قابل نہ جاہل۔
پانامہ لیکس نے حکومت کو اعصابی جنگ میں دھکیل دیا ہے ۔اپوزیشن حمام میں مشترکہ اشنان کی بجائے عالمی شہر ت یافتہ مالی کھوجی کمپنیوں کے متلاشی ہیں تاکہ شہادتیں اکٹھی کی جا سکیں ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ مدعی کون بنے گا؟ اپوزیشن ،پی ٹی آئی،پانامہ لیکس، ایف بی آریا مجوزہ کمیشن خود ؟ قانون شہادت کے تحت جُرم ثابت کرنے کا بوجھ حکومت پر ہو گا یا مدعی پر؟
کیا حکومت کے پاس اپنے دفاع میں معقول شہادت ہو گی یاپھر شہادت تخلیق یا خرید کرلی جائیگی ؟ کیا حکومت عصابی طور پر اتنی کمزور ہو جائیگی کہ اخلاقیات کا سہار ا لئے استعفیٰ ہی دے ڈالے گی یا ’’وقت خود ایک بڑی مرہم ہے ‘‘کے معقولہ پر انحصار کرتے معاملے کو کسی کولڈ سٹوریج میں ڈالنے کی کوشش کرے گی تاکہ مسئلہ کھٹائی میں پڑ جائے اور اپنی موت آپ مر جائے۔ کیا کمیشن عدالتی ہو یا غیر عدالتی ،خود مختار، سزا سنانے اور اُس پر عمل درآمدکروانے کے قابل ہو گا اور اُسکی حیثیت بھی ماضی کے ’’کمیشن کمیشن ‘‘کھیل کی مانند ہو گی؟ کیا اپوزیشن صرف بگلیں بجاتی رہ جائیگی یا اپنے ’’دھرتی ‘‘یا ’’شیرنی ‘‘مافیہ کو بھی حمام میں احتساب کیلئے پیش کردیگی ؟کیا ماضی کی طرح پاکستان کی سیاست اور تقدیر کے فیصلے مغرب میں ہی ہوا کرینگے جہاں ہر خاص و عام وہاں اپنے جلسوں اور تقریروں کے ذریعے پاکسان کی جگ ہسائی اوربدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا کے ذریعے دوام شہرت حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے ؟ کیا اپوزیشن صدق دل سے حزب اقتدار کی اصلاح اور عوام کی فلاح چاہتی ہے یا طمع نفسی اور اقتدار کی خاطر اُسے حکومت سے علیحدہ کر کے خود عنان ِ حکومت سنبھالنا چاہتی ہے ۔
شاہ ایران بستر مرگ پر پڑے موت کے بعد کسی نوری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی تیاری سے غافل اس فکر میں تھے کہ اُنکے بچے پیچھے چھوڑے گئے 40 ارب ڈالر کے حقیر اثاثوں کے سبب مزدوری کر کے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو نگے۔ کاش! ہم سب موچی کی طرح اپنے اندر کے موچی کمیشن یا قبر میں فرشتوں پر مشتمل نوری کمیشن کی حیثیت کو سمجھ لیں تو پھر انسان کا ضمیر خود ہی کہہ اُٹھے گا کہ وہ تو موچی کی طرح اپنی اٹھنی کا حساب دینے سے قاصر ہے اتنی بڑی آف شور کمپنیوں کا حساب کیسے دیگاچاہے اُنکا تعلق حکومت یا اپوزیشن سے ہو یا کسی سرکاری یا کاروباری شخصیت سے۔