پانامہ لیکس کاکیا طوفان آیا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا گو وزیراعظم نے اگلے ہی دن قوم سے خطاب کرکے اپنی اوراپنے خاندان کی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی لیکن وہ لوگوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ عمران خان نے بھرپور حملے شروع کردئیے اور رائیونڈ مارچ کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں سے رابطے بھی شروع کردئیے۔ پیپلزپارٹی نے پہلے تووزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا لیکن آصف زرداری کی ’’مفاہمتی‘‘ پالیسی کی بدولت اس مطالبہ سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا۔ میاں نواز شریف کو دل کا مرض پہلے ہی تھا لیکن انہوں نے بھی Stress لیا اور فوری طور پر علاج کیلئے لندن چلے گئے اور ہسپتالوں کے چکرمیں پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت نے تحریک انصاف کو کائونٹر کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں اور ملک میں دوفریق پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک فریق حکومتی موقف کا حمایتی اور دوسرا تحریک انصاف کے مطالبات کے ساتھ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس معاملے کاجھگڑاہے وہ ہے کیا اور یہ آف شورکمپنیاں کیا ہوتی ہیں؟
دنیا میں دو امریکہ ہیں شمالی امریکہ اورجنوبی امریکہ USA شمالی امریکہ میں ہے جبکہ جنوبی امریکہ چھوٹے بڑے 14ممالک پر مشتمل خشکی کا ایک بڑا ٹکڑا ہے۔ ان دونوں امریکائوں کے دونوں طرف دوبڑے سمندر ہیںبحرالکاہل اور بحراوقیانوس۔ ان دونوں امریکائوں کو خشکی کی ایک لمبی پٹی آپس میں ملاتی ہے اس پٹی پرچھ چھوٹے چھوٹے ممالک واقع ہیں۔ یہ چھ ممالک ایک طرف سے میکسیکو سے ملتے ہیں میکسیکو شمالی امریکہ کا پہلاملک اور امریکہ کا ہمسایہ ہے۔ یہ چھ ممالک دوسری طرف سے کولمبیا سے ملتے ہیں اور یہ جنوبی امریکہ کا پہلا ملک ہے۔ پانامہ دونوں امریکائوں کوآپس میں ملانے والی اس پٹی پر آباد ہے۔ امریکہ کے دوبڑے شہر فرانسسکو اور نیویارک الگ الگ سمندوں کے کناروں پر واقع ہیں۔ نیویارک بحراوقیانوس پر ہے اور سان فرانسسکو اور لاس اینجلس بحرالکاہل ہیں۔ ان دونوں کے درمیان چھ ملکوں کی یہ بڑی پٹی آتی ہے۔ پچھلی صدی کے شروع تک سان فرانسسکو سے بحری جہازچلتے تھے اور پورے جنوبی امریکہ کے گرد 22 ہزار کلو میٹرکا سفر طے کرکے نیویارک پہنچتے تھے اوراس میں عموماً 15 دن لگ جاتے تھے۔ امریکہ نے پچھلی صدی کے شروع میں یہ فاصلہ کم کرنے کافیصلہ کیا۔ پانامہ دونوں امریکائوں کے درمیان واحد ایسا ملک تھاجہاں دونوں سمندروں کادرمیانی فاصلہ کم ہوجاتا ہے۔ امریکہ نے اس قدرتی گفٹ کا فائدہ اٹھایا اور 1904ء میں پانامہ میں77 کلو میٹر لمبی نہرکھود دی یہ نہر پانامہ نہر کہلاتی ہے اور اس نے دونوں سمندروں کو آپس میں جوڑدیا۔ یہ نہر سوسال سے پانامہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس سے سالانہ نو لاکھ بحری جہاز گزرتے ہیں اور پانامہ اس سے اربوں ڈالرکماتا ہے پانامہ کی نہر نے جہاں نیویارک اورسان فرانسسکوکا فاصلہ 22 ہزارکلومیٹر سے کم کر کے ساڑھے نو ہزار کردیا وہاں یہ نہرملک کیلئے کمرشل ازم کا نیا ریلابھی لائی۔ پانامہ کی زیادہ ترتجارتی کمپنیاں شروع میں بحری جہازوں سے وابستہ ہوگئیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کاروبار کے نئے ذرائع سامنے آنے لگے۔ عرب ملکوں نے تیل کی تجارت میں چھلانگ لگادی۔ وسائل سے مالامال ملکوں میں آمریت نے پنجے گاڑھ دیئے۔سویت یونین اور امریکہ کے درمیان کولڈوار شروع ہوئی اور دنیا میں ہتھیاروں کی تجارت ہونے لگی۔ ویتنام اور افغانستان کی جنگوں نے منشیات کو انڈسٹری بنادیا اور ایشین ٹائیگرز نے سر اٹھایا اور دنیا میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہوگیا۔ 1960 سے 1980 کی دہائی کے درمیان دنیا کے 37 ممالک میں فوجی انقلاب اور باوردی حکومتیں آئیں۔ ان حکومتوں نے لوٹ مارشروع کردی اور 90 کی دہائی میں دنیا میں انقلاب آگیا۔ لاکھوں کمپنیاں بنیں اور ان کمپنیوں نے ٹیکس چوری شروع کردی۔ یہ نئے طریقے پانامہ سمیت دنیا کے غریب اور چھوٹے ملکوں کیلئے نعمت ثابت ہوئے اور یہ سرمایہ کاری اور ٹیکس فری جیسے خوبصورت الفاظ کے ذریعے دنیا بھرکے بڑے بڑے ناجائزکام کرنیوالوں کی لانڈری بن گئے۔پانامہ کے دووکلاء Jurgen Mossak اور Roman Fanseka نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لاء فرم بنالی۔ شروع میں یہ فرم مافیا لارڈز کیلئے آف شور کمپنیاں بناتی تھیں جبکہ پانامہ نے متوجہ کرنے کیلئے ٹیکس فری اصلاحات شروع کرائی تھیں۔ دنیا کا کوئی بھی امیر شخص پانامہ میں کمپنی بناسکتاتھا۔ بنک اکائونٹ کھول سکتا تھا اور جتنی چاہے رقم جمع کرسکتا تھا۔ حکومت اس سے Source نہیں پوچھتی تھی۔ موزیک فانسیکا اینڈ کونے دھڑا دھڑ آف شور کمپنیاں بنانی شروع کیں اور لوگ بلیک منی ڈالتے گئے وہ لوگ یورپ اور دیگرممالک میں جائیدادیں خریدتے، فیکٹریاں لگاتے اور تجارت کرتے یہ سامان دوسرے ملکوں میں فروخت ہوتا اور رقم کمپنی کے کھاتے میں جمع ہوجاتی اس طرح امیر لوگوں کی بلیک منی وائٹ منی ہوگئی جبکہ لاء فرم نے پانامہ سے باہرنکل کردفاترقائم کرلئے۔
پاکستان میں یہ لاء فرم نے بھرپوررول ادا کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر حکومت اور اپوزیشن کے ڈنڈے پانامہ کی اس فرم سے جاکر مل جاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ پچھلے سال اچانک اس فرم کا ڈیٹا چوری ہوگیا۔ کمپنی کے مین سرور سے ایک کروڑ پانچ لاکھ دستاویزات نکلے اورجرمنی کے اخبار کے پاس پہنچ گئے۔ اس سکینڈل میں دنیا کے 143 اہم لوگ شامل تھے۔ اخبار نے اس مقصد کیلئے76 ممالک کے صحافیوں کو شامل کیا۔ اس ڈیٹا میں ابتدائی طور پر 200 پاکستانی خاندانوں کے نام سامنے آئے ہیں جس سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے بڑے بڑے لوگ آف شور کمپنیوں میں جاکر اپنا پیسہ محفوظ کررہے تھے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے حقائق جانے بغیر اس پر سیاست شروع کردی ہے۔ اندازہ کریں کہ پیپلزپارٹی کے اعتزازاحسن نے کھل کر بات کی ہے جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنے موقف کو تبدیل کرلیا ہے۔
یہ اخلاقی سوال ہے اور اس کا حقائق سے تعلق ہے۔ میاں نوازشریف جب تک اپنے بیٹوں کے کاروبار کے متعلق لوگوں کو یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوتے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح عمران خان کے کمزور مارچ سے بھی فرق نہیں پڑیگا۔ کیونکہ یہ پاکستان کے20کروڑعوام کامسئلہ ہے اور ملک کے حکمرانوں کی ساکھ دائوپرہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے اور لوٹی دولت واپس لائی جائے کیونکہ ابھی تو بہت سارے لوگوں کے نام سامنے آنے والے ہیں 1کروڑ 5لاکھ دستاویزات باقی ہیں جن کو Dcode کرنے کا عمل جاری ہے۔