گزشتہ دنوں میں اپنے گھر کی چھت پر مختلف پرندوں کی اڑان‘ ان کی آزادی بے فکری اور قناعت پسندی کا نظارہ کر رہا تھا۔ ہم ملازم پیشہ لوگ صبح دم گھر سے اس لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ دفتر میں ہمارا ایک باس ہوتا ہے۔ حاضری کا ایک رجسٹر ہوتا ہے۔ ان پرندوں کا کوئی افسر یا باس نہیں ہوتا۔ ان کا کوئی حاضر رجسٹر بھی نہیں ہوتا۔ پرندوں کی دنیا میں کوئی’’ لیگ پلنگ‘‘ والا معاملہ بھی نہیں ہوتا۔ پرندے کتنے قناعت پسند ہوتے ہیں کہ راضی برضا رہتے ہیں۔ پرندے چوں کہ تنخواہ دار نہیں ہوتے‘ اس لئے پہلی یا دوسری تاریخ کو کوئی پرچون فروش‘ کوئی گوالا اور کوئی سبزی فروش ان کا راستہ نہیں روکتا یا ان کا منتظر نہیں ہوتا۔ طوطے ہم ملازموں کی طرح دکانداروں سے بچنے کے لئے روزانہ گلیاں بھی نہیں بدلتے۔ سب سے بڑھ کر پرندوں کو جو قدرتی سہولت حاصل ہے‘ وہ ان کا مستقل یونی فارم ہے۔ انہیں روزانہ پتلون قمیض تبدیل نہیں کرنا پڑتی۔ پرندوں کی بیویاں بڑے مزے میں رہتی ہیں۔ انہیں اپنے مجازی خدا کی رنگ برنگی پوشاکیں نہیں دھونا پڑتیں۔ پرندوں کا مواصلاتی نظام بھی آٹو میٹک ہے۔ انہیں موبائل بھی نہیں رکھنا پڑتے اور ایزی لوڈ بھی نہیں کرانا پڑتا۔ ہمارا ایک ملازم دوست کہتا کاش میں ایک طوطا یا کبوتر ہوتا۔ میرا دوست کہتا ہے کہ آج کل سب سے بڑا مسئلہ کنوینس کا ہے۔ اگر میں پرندہ ہوتا تو پُھر سے اڑ کر ایک درخت سے دوسرے درخت پر پہنچ جاتا۔ کسی ’’پرندی‘‘ کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھاتا۔ گرمیاں ہم ملازموں کے لئے کسی دوزخ سے کم نہیں ہوتیں۔ ہم ملازم اے سی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ پرندے گرمیوں میں درختوں کے ہرے بھرے پتوں میں اے سی کے مزے لوٹتے ہیں اور قسم قسم کے پھل بھی مفت ہی کھاتے ہیں ابھی ہم اپنے ذہن میں انہی خیالات کا تانا بانا بن رہے تھے کہ ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ڈاکیے نے ایک لفافہ ہمارے ہاتھ میں تھمایا۔ لفافے کا پیٹ چاک کیا تو اندر سے ایک خط نکلا یہ خط کسی پروفیسر آفتاب احمد نے تحریر کیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے لکھا ایک سرکاری نوکر مہینے کے آخری دنوں میں جس کرب سے گزر رہا ہوتا ہے وہ ناقابل برداشت ہی نہیں‘ ناقابل بیان بھی ہے۔ موت کا ایک دن معین ہے لیکن روزانہ مصائب کا سہنا گویا وقت سے پہلے ہزار دفعہ مرتا ہے۔ نوکری سرکاری ہو خواہ وہ نائب قاصد ہی کی کیوں نہ ہو۔ خاکسار ہی کا نہیں بلکہ سرکاری اہلکاروں کے چہروں پر اگر تنخواہ کے بنیادی ایام میں کچھ دنوں کے لئے سرخی کی لہر اٹھتی بھی ہے تو بہت جلد ایام مرجھاہٹ کا آغاز ہی نہیں ہوتا بلکہ اگلے ماہ کی تنخواہ کے انتظار میں شب ہجر سے بھاری گزرتے ہیں۔ خدانخواستہ کہ ایام نظربندی میں کوئی مہمان کسی ملازم کی جانب رخ کرنے کا ارتکاب کر لے تو اس میزبان کی فکر پریشاں نہ جانے کہاں کہاں جاتی ہے کم از کم وہ کیفیت ایک ملازم ہی محسوس کر سکتا ہے۔جیسے بھی انسان جیئے لیکن آدمی کے پاس نوکری کرنے کے علاوہ بھلا اور کوئی کام ہوتا بھی تو کیا ہے۔ بے جوڑ شادی کی طرح ایک ملازم اپنی مدت قید سے فراغت پاتا ہے تو بڑھاپا گھیر لیتا ہے۔ ریٹائرڈ اہلکار جو عمر بھر کی پونجی ملتی ہے تو بھی اننگز کھیلنے والے کو کوئی دھیلا نصیب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات یہ رقم معاشرے کی رسومات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات اللوں تللوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ بھائی کیا بتاؤں‘ انسان کو نوکری کا احساس وہ لوگ بہتر طور پر دلاتے ہیں‘ جو اس آزار سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ نوکری معاشی غلام ہی نہیں بناتی بلکہ انسان پوری زندگی کا حساب کار بن جاتا ہے۔ زنجیر میں جکڑے ہی نہیں گئے بلکہ اب ایسے عادی ہو گئے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی اس آزار سے نجات ممکن نہیں‘‘/ ہمارے ملک میں تنخواہ دار شخص کا جینا تو مشکل ہے ہی‘ اس کا مرنا بھی بہت مشکل ہے۔ ایک تنخواہ دار شخص بتا رہا تھا کہ اس کے دادا جان نوے سال کے ہو چکے ہیں۔ ایک تو ان کے لئے روزانہ ادویات آتی ہیں۔ وہ بہت مہنگی ہیں۔ جس دن دادا جان کی دوا لانی ہوتی ہے‘ اس دن ہم چٹنی سے روٹی کھاتے ہیں جس روز ان کی طبعیت زیادہ خراب ہو جائے‘ اس روز ہمارے طوطے اڑ جاتے ہیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے گورکن‘ قبر کے اخراجات اور بریانی کی دیگیں وغیرہ گھومنے لگتی ہیں۔ جس گھر میں مرگ ہوتی ہے‘ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ کسی زمانے میں مرگ والے گھر سے تین دن تک دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ اب مرگ والے گھر کے باہر شامیانے لگے ہوتے ہیں۔ دیگیں کھڑک رہی ہوتی ہیں۔ کسی کا قول ہے کہ جس گھر میں مرگ ہوتی ہے‘ وہ پہلے ہی مرا ہوتا ہے‘ لوگ اپنے گھروں میں کھانا پکانا چھوڑ کر مرگ والے گھر آجاتے ہیں اور سب مل کر مرے ہوئے کو مزید مارتے ہیں۔ اگر ملازم کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہیں تو کسی مارکیٹ میں چلے جائیے۔ ملازم کا یہ تعارف دیکھئے۔
’’آپ اسے پہچانتے ہیں‘‘
’’جی ہاں! اس کا رنگ زرد ہے۔ کپڑے پھٹے پرانے ہیں‘ چپل ٹوٹی ہوئی ہے۔ یہ ایک ملازم ہے۔ ’’کیا اسے مہینے بعد تنخواہ ملتی ہے۔‘‘ ’’یہ ہر مہینے تنخواہ ایڈوانس لیتا ہے اور قرض بھی لیتا ہے۔ ’’اس ملازم کے کیا کیا مسائل ہیں؟ یہ رہائش اور خوراک وغیرہ کے مسائل کا شکار رہتا ہے۔ ’’یہ گھر کے مسائل کیسے حل کرتا ہے؟‘‘ یہ روزانہ اپنی بیگم سے لڑ جھگڑ کر مسائل حل کرتا ہے۔ گھر کے اخراجات پر دونوں میاں بیوی لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے مسائل حل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بعض ملازمین اپنے بچوں کا گلا دبا کر خود پنکھے کے ساتھ جھول جاتے ہیں۔ یہ بھی اقتصادی مسائل کا ایک حل ہے۔ آگے بجٹ آنے والا ہے۔ اللہ کرے حکومت کسی ملازم اور اس کے بچوں کے ایک دن کا بجٹ بنا کر یہ فیصلہ کرے کہ اسے مہینے بھر کے لئے کتنی تنخواہ درکار ہو گی۔