اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس میںعبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم مشال خان کے قتل کی بریفنگ میں افسردگی کا منظر رہا۔ مشال خان کے قتل کی لرزہ خیز واقعہ کی تفصیلات کے دوران چیئرمین و ارکان کمیٹی نے مشال کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور درناک قرار دیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسے واقعات سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ کسی کو بھی کسی بھی صورت میں سزا دینے کی اجازت نہیں، کمیٹی اجلاس میں مثال خان کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا تحفظ ناموس رسالتؐ ہر مسلمان کے ایمان کا جزو اولین ہے لیکن اپنے مقاصد کی خاطر مذہب کے نام پر اشتعال بھی قابل مذمت ہے۔ رحمت العالمینؐ کی سیرت ہر مسلمان کیلئے مشعل راہ ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کوئی گستاخی قبول نہیں، جس طرح مثال کو مارا گیا ظلم ہے جو جھوٹے الزام لگائے اس کیلئے بھی سخت سزا ہونی چاہئے، یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا مردان میں دردناک اور اندوہناک واقعہ ہوا، عوامی آگاہی کیلئے نوٹس لیا، ہجوم پراسیکیوٹر، انوسٹی گیٹر اور جلاد نہیں بن سکتا، ایسے واقعات ملک اور مذہب کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، کسی بھی صورت میں ہجوم کو سزا دینے کی اجازت نہیں ہے، کمیٹی نے مثال خان پر تشدد والی ویڈیو پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت دی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے ویڈیوز بلاک کرائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ جعلی فیس بک اکائونٹ بنانے والے کے ذریعے اصل مجرم کو پکڑا جا سکتا ہے۔ کمیٹی نے تمام یونیورسٹیوں کو اسلحہ سے پاک کرنے کی سفارش کر دی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا چاروں وزراء اعلیٰ کو خطوط لکھے جائیں گے اور کہا کہ فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹ قومی شناختی کارڈ سے منسلک ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال کو جو نوٹس جاری کیا تھا اسے واپس کیوں لینا پڑا اور سوال اٹھایا کہ ہجوم کو کنڑول کرنے کیلئے کیا پولیس کے اختیارات ، فرائض اور دیئے گئے ایس اوپی پر عمل کیا گیا، پولیس نے مشال کو بچانے کیلئے کون سے اقدامات اٹھائے۔ رحمان ملک نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی جو طلباء اور یونیورسٹی ملازمین مشال خان کے قتل مقدمے میں شامل تفتیش ہیں ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں اور تحریری طور پر بتایا جائے مشال خان اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان کیا اختلافات تھے۔ آر پی او نے جواب دیا کہ جب پولیس ہاسٹل پہنچی تو مشال خان کو سینے پر گولی لگی ہوئی تھی مشال کو گولی تیسرے فلو رپر ماری گئی اور گھسیٹ کر سیٹرھیوں سے نیچے لایا گیا جب پولیس پہنچی تو مشتعل ہجوم مشال کو زدوکوب کر رہا تھا۔ پولیس نے مشتعل طلباء کے درمیان میں سے مشال کو نکال کر پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے باہر منتقل کیا۔ رکن کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا یہ ثابت شدہ واقعہ ہے، جوڈیشل انکوائری سے کیس تاخیر کا شکار ہوگا، اس معاملے کو لٹکانا نہیں چاہئے۔ مثال خان کو مارنے والوں کو دہشتگردوں سے بھی سخت سزا دینی چاہئے۔