رضا ربانی کا ایک اور ”اعزاز“

سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پارلیمانی تاریخ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار رول 23 کے استعمال کا اعزاز اگرچہ انہیں یہ اعزاز Blessing in disguised ”بلیسنگ ان ڈسگائزڈ“ کے تحت حاصل ہوا ہے مگر اعزاز تو اعزاز ہوتا ہے وہ کسی طرح بھی ملے اسکے محرکات کچھ بھی ہوں۔ ادارے کی توہین کر کے ملے، خود کو ادارے سے ممتاز سمجھ کر ملے، سیاسی وجوہ کی بنا پر ملے، کسی اٹل حکم کی بجا آوری میں ملے، احتجاج کرتے ہوئے ملے یا سیاسی توہین کو برداشت کرنے پر۔ کون ان باریکیوں میں جاتا ہے مگر سینٹ چونکہ بہت اہم ادارہ ہے ہمارے جاری نظام میں ایوان بالا کا درجہ سے حاصل ہے۔ صدر مملکت کے بعد ریاستی معاملات اور پروٹوکول میں سینٹ کے چیئرمین کا دوسرا نمبر ہے میں نے بے اختیار صدر کے بعد رضا ربانی کو ان کا بھی دو نمبر اس لئے نہیں کہا کہ وہ نہ یہ جانتے ہیں اور نہ ماننے کو تیار ہیں۔ اگر وہ جانتے اور مانتے تو وہ سینٹ کی اس طرح بے توقیری کی دھائی نہ دیتے کہ حکومت اسے اہمیت نہیں دیتی اور وزیر ادھر کا رخ نہیں کرتے یہ کوئی نئی بات نہیں سینٹ کو ہر وقت نے اتنی ہی اہمیت دی جتنی موجودہ حکومت دے رہی ہے اور ہر حکومت کے وزیر سینٹ میں کبھی کبھار ہی سیر سپاٹا کرنے آئے مگر رضا ربانی صاحب نے یہ سب جانتے بوجھتے اور سالوں سے اس کا تجربہ کرنے کے باوجود اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا کہ وہ ناراض ہو کر گھر چلے گئے اجلاس ملتوی کر دیا اور شکایت کی کہ حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں۔ سینٹ کی آئینی حیثیت تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ مستعفی ہونے کی زبانی پیشکش کر دی۔ سرکاری گاڑی کے استعمال کو دل ہی دل میں اپنے اوپر حرام قرار دے لیا اور گھر واپسی کےلئے ذاتی گاڑی منگوا لی۔ اپنی اس غلطی کا انہیں فوراً احساس ہو گیا اور جونہی راجہ ظفر الحق نے انہیں منانے کی کوشش کی تو وہ اس کوشش سے پہلے ہی سرکاری گاڑی استعمال کرنے پر رضامند ہو گئے کاش انہوں نے اس موقع پر منطبق ہونے والا یہ شعر پڑھا ہوتا
خدا محفوظ رکھے اس وقت سے میری غیرت کو
کہ دشمن بھی ترس کھا کر میرا غمخوار ہو جائے
رضا ربانی تو اپنے قائد آصف زرداری کو راضی کرنا چاہتے تھے کیونکہ ایک دن پہلے ہی پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپنے تین قریبی لاپتہ ہونے پر احتجاج کا حکم دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے اندر کے ذمہ دار حلقوں میں یہ بات کوئی خفیہ راز نہیں بلکہ زرداری صاحب کے سیاسی سفر میں کسی نہ کسی جگہ اور وقت انکی ہمرکابی کرنےوالے بھی جانتے ہیں کہ زرداری صاحب اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی سے راضی نہیں بلکہ ان کا تو یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں حضرات مجھ سے راضی نہیں۔ خورشید شاہ بارے میں تو انہوں نے کھل کھلا کر کہا کہ اسے میں نے وزیراعلیٰ سندھ نہیں بنایا اس نے اندر سے مجھے معاف نہیں کیا اور رضا ربانی کی پونی کی طرف اشارہ کر کے کہا اس میں دانشوری کا خناس پھنس گیا ہے ہم چوں ما دیگرے نیست کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے واللہ اعلم دروغ بر گردن راوی کہہ کر میں ان دونوں کے غضب سے بچنے کی تدبیر کر لوں تو بہتر ہے اب ہر ذی ہوش اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا اسی پس منظر میں خورشید شاہ کیلئے تو احتجاج کو بہت آسان اور عام سمجھ لے گا جب چاہیں ایوان سے باہر آ جائیں جماعتی ڈسپلن انکی جماعت کے ارکان کو انکے پیچھے آنے پر مجبور کر دیگا۔ رضا ربانی کو نہ یہ سہولت حاصل ہے اور نہ ہی وہ سینٹ سے پیپلز پارٹی کے ارکان کے واک آ¶ٹ کا پہلے پورے ایوان کے واک آ¶ٹ یا احتجاج کا کریڈٹ نہیں لے سکتے اس لئے شومئی قسمت سے انکے پاس اپنے باس سے وفاداری ثابت کرنے کی ایک ہی آپشن تھی کہ وہ خود سینٹ کے چیئرمین کے طور پر سالوں سے دل میں بھری بھڑاس نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنی اس بات پر ناراض کو بہانہ بنا کر سینٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیتے ناراض ہو کر گھر چلے جاتے۔ فوری فائدے کو ملحوظ رکھتے ہوئے راجہ ظفر الحق کی بات مان لی اور راجہ ظفر الحق نے بھی جہاندانی اور جہاں بینی کی بنا پر اتنا ہی کہا جس کے مان جانے کا انہیں سو ڈیڑھ دو سو فیصد یقین تھا۔ باقی معاملہ اسحاق ڈار پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ وہ رضا ربانی کے بہت قریب ہیں راضی کر لیں گے۔ چیئرمین سینٹ کے اس انوکھے احتجاج کی ٹائمنگ نے انکی حریت فکر کا بھانڈا پھوڑ دیا انکی ادارے کے احترام کو بچانے کیلئے اس قربانی کے پیچھے کارفرما محرکات کو طشت ازبام کر دیا اور تاریخ میں پہلی بار رول 23 کے استعمال کا سہرا انکے سر سجا دیا۔ سیاسی مجبوری کیا کیا کراتی ہیں اس پر اعزاز امجد آذر مرحوم کا یہ شعر بہت ہی برمحل معلوم ہوتا ہے۔
میری یاد کو ذرا بھول کر میرے دوستو مجھے داد دو
میں لڑا ہوں آخری سانس تک میرے پاس ایک ہی تیر تھا
جناب زرداری صاحب رضا ربانی کے پاس ایک ہی تیر تھا انہوں نے چلا دیا انکی اس محدود اختیاراتی کوشش کی قدر کیجئے اور انہیں اٹھارہویں ترمیم لا کر 1973ءکے آئین کو جو آپ کے فادر ان لاءذوالفقار علی بھٹو نے تمام سیاسی لیڈروں کی مشاورت سے متفقہ طور پر منظور کرایا تھا تہس نہس کرنے کا جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو اس طرح برباد کرنے میں آپکے جملہ کارناموں سے زیادہ نمبر لیتا ہے۔
ایسے جیالے کے دماغ یا پونی میں اگر دانشوری کا خناس پھنس جائے تو نظرانداز کر دینا چاہیے اور اب انہوں نے جس طرح سینٹ میں وزراءکی عدم حاضری اور حکومت کا سینٹ کو اہمیت نہ دینے کا جو لولا لنگڑا بہانہ بنایا ہے وہ بھی انکی اس دانشوری کی پیداوار ہے وگرنہ یہ بہانہ بنتا نہیں یہ اسکی سیاسی حیثیت یہ حکومتی عمل ہے ایسا عمل جسے نہ حکومت چھپائے نہ جس پر شرمائے اس کو بہانہ بنانے کی جرا¿ت کرنا خود کو لوگوں کو دھوکا دینا ہے اور یہ رسک لینے والا آپکی محبت کا حقدار تھا۔ آپ اسے رضا ربانی کی سیاسی انگڑائی کہہ لیں وہ انگڑائی جو لیکر دوسروں پر نحوست ڈالنے کی علامت ہے یہ نحوست سینٹ تک ہی محدود رہیگی موجودہ حکومت۔ آج کے حکمران اور آپکی حکومت اور اسکے ارکان تک اسکی خاک بھی نہیں پہنچ پائیگی۔

ای پیپر دی نیشن