مودی کیخلاف کشمیریوں کے مظاہرے اور شملہ معاہدہ

بھارتی وزیراعظم مودی سویڈن اور برطانیہ کے 5 روزہ دورے پر ہیں۔ ان کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی گذشتہ روز لندن میں کشمیریوں نے پارلیمنٹ کے سامنے زبردست مظاہرہ کیا۔ یہ وہ کشمیری ہیں جو خودبخود ایسے موقعوں پر بناکسی سرپرستی کے جمع ہوکر بھارت مخالفانہ مظاہرے کرتے ہیں اور برطانوی عوام اور میڈیا کو بھارت کا وہ مکروہ چہرہ دکھاتے ہیں جو اس نے جمہوریت کے نقاب تلے چھپا رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم آج کل دولت مشترکہ کانفرنس میں شرکت کے لئے برطانیہ اور انڈیا کارڈک کانفرنس میں شرکت کے لئے سویڈن کا دورہ کررہے ہیں۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم عالمی سطح پر کشمیر میں او ربھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے درپے الزامات کے دبائو میں ہیں عالمی میڈیا اور عالمی ادارے بھارت میں اقلیتوں کے قتل عام اور کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کے وحشیانہ قتل عام پر خاص برہم ہیں اور ہر طرف سے بھارت پر لعنت ملامت ہورہی ہے۔ ان حالات میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے لندن اور ناروے میں موجود کشمیری اور پاکستانی جو کوشش کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ اگر انہیں پاکستانی سفارتخانوں سے مناسب توجہ ملتی اور اجتماعی طور پر حکومت پاکستان کوئی بڑا پروگرام دیتی ہے تو لندن اور سٹاک ہوم میں بھارتی وزیراعظم کے لئے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے حکومت پاکستان کے علاوہ خود آزاد کشمیر حکومت بھی جو حقیقت میں مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ دودھ پینے والا مجنوں ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بڑا ایکشن لینے میں کامیاب نظر نہیں آرہی۔ آزاد کشمیر حکومت نے جو 5یا6رکنی وفد برطانیہ کے دورے پر بھیجا ہے اس کی حیثیت سیاحتی دورے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت بے شک اندرونی طور پر اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ مگرمسئلہ کشمیر بھی تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر وزارت خارجہ کو ہمیشہ فعال کردار ادا کرنے میں مصروف رہنا چاہئے۔ سٹاک ہوم میں تو چلیں کشمیری اور پاکستانی خود معاملہ سنبھال لیں گے یہاں انہیں سکھوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ یہاں کے کشمیری اگر میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ساتھ ملا کر بھارتی وزیراعظم کی آمد پر کوئی بڑا پروگرام منعقد کرتے ہیں تو سویڈن حکومت کو بھی سیاسی سطح پر خود بخود مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت پردبائو ڈالنے کا موقع مل جائے گا۔رہی بات برطانیہ کی تو وہاں کشمیری او رپاکستانی ہی نہیں سکھ بھی کافی متحرک ہیں مگر بات وہی پاکستانی سفارتخانوں کے متحرک ہونے کی ہے ان کی دلچسپی کی ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے جو رابطے سفارتخانوں کے ہوتے ہیں وہ عام لوگوں کے نہیں ہوتے۔ دولت مشترکہ فورم پر پاکستانی وزیراعظم بھی کھل کر مسئلہ کشمیر کے حل ، کشمیریوں کے قتل عام اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے ساتھ ممنوع مہلک ہتھیاروں کے استعمال پر آواز بلند کرتے ہیں تو بھارتی وزیراعظم کو کارنر کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی مظالم کی بھرپور تشہیر کرکے میڈیا رپورٹوں کو عام کرکے برطانیہ میں بھارتی وزیراعظم کی بولتی بند کی جاسکتی ہے انہیں میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کٹہرے میں بطور مجرم کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت اب مصلحت کوشی چھوڑ کر کھل کر بھارتی کشمیر دشمن پالیسیاں بے نقاب کرے۔ گمنام قبروں سے لے کر پیلٹ گن کی وجہ سے معذور اور نابینا ہونے والوں کے المیہ سے دولت مشترکہ کو روشناس کرانا ہوگا۔ بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کے املاک کی بربادی، خواتین سے زیادتی اور کشمیریوں کے وحشیانہ قتل عام سے انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ کام پاکستانی وفد کو اجلاس میں کرنا ہے باقی کام باہر کشمیری مظاہرین خود سنبھال لیں گے۔ یہ وقت ہے جب پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت کو دفاعی پوزیشن میں لاسکتا ہے ۔ عالمی برادری اس وقت ہمہ تن گوش ہے۔ ان کے کانوں میں کشمیر میں گونجنے والے نعروں کا شور اور آنکھوں کے سامنے بہتے ہوئے لہو کا منظر دکھانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ خود اس مسئلے کے حل کی منظوری دے چکی ہے۔ اب بھارت لاکھ شملہ معاہدے کی گردان دہرائے تو لندن دولت مشترکہ کانفرنس میں پاکستانی وزیر اعظم اس فرسودہ معاہدے سے علیحدگی کا لاتعلقی کا اعلان کرکے کشمیری عوام کے دل جیت سکتے ہیں۔ اس معاہدے کی خود ہر جگہ ہر مقام پر بھارت نے خلاف ورزی کی ہے۔ جس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا اس وقت پاکستان مغلوب اور بھارت غالب تھا۔ فتح کے نشے میں بدمست بھارت نے اس وقت موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پسندیدہ اور مطلوبہ شرائط پر پاکستان سے جو قیدیوں کی واپسی کا معاہدہ کیا اوراس کی قیمت کشمیر کی شکل میں وصول کی۔اس معاہدے کی روسے مسئلہ کشمیر اب کسی عالمی فورم پر نہیں اٹھایا جا سکتا بلکہ دونوں ممالک پاکستان اور بھارت نے درمیان باہمی مذاکرات سے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ یہ قصہ 1972-1971ء کا ہے اس کے بعد 47 برس ہو گئے تاریخ گواہ ہے۔ بھارت نے کشمیر کو غلام بنانے اسے اپنے اندر ضم کرنے کا ہر وہ حربہ استعمال کیا جووہ کر سکتا ہے۔ شملہ معاہدے کی بھرپور خلاف ورزیاں ہوئیں۔ 1975ء میں بھارت نے کشمیر کو اپناحصہ بنا دیا۔ 1989ء میںتحریک آزادی شروع ہوئی مشرف دور میں سیزفائر لائن پر بھارت نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے آہنی باڑھ لگانا شروع کی تو مشرف حکومت نے ایک لفظ تک مذمت میں ادا نہیں کیا حالانکہ اگر پاکستان ذراسی بھی جوابی کارروائی کرتابھارت یہ باڑھ کبھی لگا نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ یہ بھارت اور پاکستان کا سرحدی علاقہ نہیں سیزفائر لائن ہے۔ ایسے متنازعہ علاقوں میں کوئی زبردستی اس کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا، دیوار نہیں بنا سکتا۔ مگر کیا کریں یہ سب شملہ معاہدہ کی برکات ہیں جسے ہمیشہ پاکستان نے گلے سے لگائے رکھا اور بھارت نے ردی کی ٹوکری میں ڈالے رکھا۔ بھارت خود اس معاہدے پر عمل کرنے سے انکاری ہے تو پاکستان کیوں اسے زبردستی گلے کا ہار بنائے بیٹھا ہے۔ اب وقت آگیا ہے اس بے کار معاہدے سے جان چھڑائی جائے۔

ای پیپر دی نیشن