’’ہمیں جنگ جیتنی نہیں ختم کرنی ہے پاکستان ہماری مدد کرے‘‘ یہ بیان افغان صدر اشرف غنی نے 18 مارچ 2018ء کو کابل میں اس وقت دیا جب پاکستان سے مشیر قومی سلامتی خصوصی دورے پر کابل پہنچے جہاں انہوں نے اشرف غنی کے علاوہ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی خوشگوار ماحول میں ملاقات کی۔ اس موقع پر افغان صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو دورہ افغانستان کی دعوت دیتے ہوئے ماضی کی تلخیوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنے اور امن کے حصول کی مشترکہ کوششوں کی پیشکش کی۔ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ سے ملاقات کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان سے گہری امیدوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ جیتنے کی بجائے اسے ختم کرنا ہے۔ اس کیلئے پاکستان ہماری مدد کرے۔ ہمیں ماضی کا قیدی بنے رہنے کی بجائے اپنا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے ایک سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ اس ملاقات کی افغان میڈیا و سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی جو کہ ایک مثبت اقدام تھا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کا باہمی تعلق روایتی ہمسایوں جیسا نہیں بلکہ تہذیبی و تاریخی طور پر کئی صدیوں پر محیط ہے۔ جس میں مذہبی و ثقافتی یگانگت اس تعلق کو مزید قربت فراہم کرتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ افغان صدر نے زمینی حقائق کیمطابق جس طرح کی خواہش کا اظہار کیا اور مل کر آگے بڑھنے کی بات کی کیا وہ اس طرح کے فیصلوں کیلئے بااختیار ہیں؟ اگر انہوں نے صدارت جیسا اہم عہدہ رکھنے کے باوجود افغانستان میں بھارت کے مفادات کو مقدم سمجھنا ہے۔ افغان زمین پاکستان کیخلاف دوسرے محاذ کے طور پر استعمال کی بھارت کو اجازت دینی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں دہشت گردوں اور ان کی قیادت کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہی نہیں پاکستان کیخلاف سٹرٹیجک تعاون بھی فراہم کرنا ہے۔ تو پھرل ملکر کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی و خود کش دھماکوں کی بہت سی کارروائیوں کے ناقابل تردید ثبوت افغان صدر کو فراہم کئے گئے جس سے دہشتگردوں کی افغانستان سے آمد اور کارروائی کے دوران افغانستان میں اپنے سرپرستوں سے ٹیلی فون پر مسلسل رابطہ ثابت ہوتا تھا مگر ان کے خلاف کارروائی کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں تھاکہ اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے پاک افغان سرحد سے آزادانہ آمدورفت کو روکا جائے اور راہداریوں پر گیٹ لگا کر پاکستان میں داخل ہونے والوں کو شناخت دکھانے اور سفری دستاویزات ہمراہ لانے کا پابند کیا جائے۔
یہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا جس سے سفارتی آداب و انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا بین الاقوامی سطح پر سرحدوں کے استعمال کے حوالے سے طے شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اسکے باوجود بارڈر مینجمنٹ کے نفاذ کے باوجود حصول تعلیم کیلئے پشاور آنے والے ہزاروں افغان طالب علموں کو بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے لگائی گئی پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا اور مریضوں کیلئے بھی سابقہ سہولیات برقرار رکھی گئیں۔ بارڈر پر خاردار باڑ کی تنصیب اور آزادانہ آمدورفت کو ضابطے میں لانے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان خصوصاً خیبر پی کے صوبے اور فاٹا کے علاقوں میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بڑی حد تک قابو پا لیا گیا۔ علاوہ ازیں سرحد پار سے مسلح جتھوں کی شکل میں مقامی آبادیوں اور فوجی چوکیوں پر حملہ کرنیوالوں کی روک تھام ممکن ہو گئی۔ پاکستان کے ان اقدامات کیخلاف افغانستان کی پارلیمنٹ میں قراردادیں پیش ہوئیں۔ سڑکوں پر جلوس نکالے گئے‘ افغان میڈیا نے پاکستان مخالف شرانگیز پروپیگنڈے کا طوفان برپا کئے رکھا۔ اتنا ہی نہیں چمن اور طورخم کے بارڈر پر افغان نیشنل آرمی نے بلااشتعال فائرنگ کر کے پاک فوج کے بہت سے جوانوں کو شہید کر دیا جس کا سلسلہ تاجال جاری ہے مگر افغانستان کی وزارت داخلہ و دفاع پر مکمل کنٹرول رکھنے والا بھارت اور اسے خطے کا چوہدری بنانے کا خواہشمند امریکہ سرحد پر باڑ کی تنصیب سے خوش نہیںتھے کیونکہ بھارت کیلئے را اور این ڈی ایس کے اشتراک سے پاکستان میں دہشت گردی کے کھیل کو جاری رکھنا ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ اس کیخلاف دھونس‘ دھمکیوں اور امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے حربوں کو ناکامی سے دوچار ہوتا دیکھ کر پاک افغان تاریخی تنازعہ ڈیونڈ لائن کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال کر اسے پھر سے میدان میں اتارنے کی حکمت عملی تیار کی گئی اور پاکستان میں حکومت کے اہم اتحادی ایک قوم پرست لیڈر کے ذریعے افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کے مسئلے پر ’’گریٹر پختونستان‘‘ کی طرز پر بیان دلوا کر پاکستان میں اس کیخلاف ردعمل اور اس کی بنیاد پر افغانستان میں ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ قرار دلواکر اس مسئلے پر بحث کی راہ ہموار کر دی گئی۔ افغانستان میں ڈیورنڈ لائن کی بحالی کے حق میں نکالی جانیوالی ریلیوں میں دوسرا مطالبہ افغان و پاکستان کے پختونوں کے اتحاد کا تھا۔ اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہر طرف سے پختونوں کے حقوق کی بات ہونے لگی۔ پختون تحفظ موومنٹ کے نام پر ایسی تحریک کا منظر نامہ پیش کیا جانے لگا جیسے قبائلی علاقوں و خیبر پختونخواہ کے پختون کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ تحریک چلانے والے چند نوجوانوں کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آ گیا کہ وہ بڑے بڑے جلسے کرنے لگے اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا قبائلی علاقوں و خیبر پی کے میں برپا اتنی بڑی تحریک سے کیونکر بے خبر رہا اور جب یہ موضوع زیر بحث آیا تو پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کو اسی انداز سے جائز قرار دیا جانے لگا جیسے کسی زمانے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ’’فریڈم فائٹر‘‘ قرار دے کر آزادی اظہار کے نام پر ٹیلی ویژن چینلوں پر انکے انٹرویو نشر کئے جاتے تھے اور انہیں موقع فراہم کیا جاتا تھا کہ اپنی قوم پرستی کا بیانیہ آگے بڑھائیں۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فاٹا کے قبائلیوں کی قربانیاں کم نہیں ہیں۔ انکی سب سے بڑی قربانی تو یہ ہے کہ اس جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے وہ گھر بار چھوڑکر بے سرو سامانی کی حالت میںکیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ پیچھے دوران جنگ انکے گھر و کاروبار سب تباہ ہو گئے جس کی تعمیر نو پوری پاکستانی قوم پر فرض ہی نہیں بلکہ قرض ہے اور اس حوالے سے تیزی کے ساتھ کام جاری بھی ہے جس کا قبائلی عوام کو بخوبی علم ہے مگر انکی قربانیوں کو احترام دینے کی بجائے پختون تحفظ موومنٹ کے نام پر وہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں جو کبھی ’’گریٹر پختونستان‘‘ کا ماضی میں نعرہ لگانے والوں کے دفتروں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کابل میں پاکستان کیخلاف جلوس نکالنے والوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کون سکیورٹی اداروں کی طرف سے شہریوں کو لاپتہ کئے جانے کی حمایت کریگا لیکن ان کا کوئی نام و پتہ بھی تو ہونا چاہیے۔ خالی یہ کہہ دینا کہ 8 ہزار یا 18 ہزار افراد لاپتہ ہو گئے کافی نہیں۔ میڈیا پر ان افراد کی لسٹ جاری کی جانی چاہیے تھی اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا فضل اللہ اور ٹی ٹی پی کی افغانستان فرار ہونے والی دیگر قیادت کا نام لسٹ میں شامل ہے یا نہیں۔ پھر ابھی قبائلی علاقوں میں امن بحال ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے ساتھ ہی افغانستان میں بھی تحریک شروع ہو گئی۔ ایک جگہ پختون تحفظ اور دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کی حمایت میں جس کیخلاف افغانستان میں ’’افغانستان فریڈم اینڈ ڈیموکریسی موومنٹ‘‘ کے سربراہ جاوید کوہستانی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے افغان صدر و حکومت کو ڈیورنڈ لائن کے گڑے مردے اکھڑنے کی بجائے افغانستان میں قیام امن کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جس کی افغان عوام کو زیادہ ضرورت ہے۔ جاوید کوہستانی نے اپنے حکمرانوں کو احساس دلایا ہے کہ ایسے موقع پر جب دنیا افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستانی کردار کو تسلیم کر رہی ہے افغان حکومت میں الٹا ڈیونڈ لائن کا مسئلہ چھیڑ کر نہ جانے کس کوخوش کرنے کیلئے نیا تنازعہ کھڑا کرنا چاہتی ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر لائن کو عالمی سطح پر تسلیم کئے جانے کی بدولت کسی طرح کی تبدیلی تو ممکن نہیں ہو گی۔ البتہ امن افغانستان سے مزید دور چلاجائے گا۔
ڈیورنڈ لائن کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش
Apr 19, 2018