عمران خان کی قصہ گوئی اور قصہ خوانی بازار

قصہ گو لہک لہک کر کہانی کے دروبست کھولتا جا رہا تھا۔ کہانی کاری کی بہت سی جذئیات اس کی دسترس میں تھیں اور جو نہیں تھیں‘ وہ ان کے اندر کھلی مبالغہ آرائی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ کہانی میں ایک سحر تھا‘ جادوئی لہجے میں جب وہ کہانی کو یک جنبش آگے بڑھاتا تو لوگ سر دھننے لگتے تھے‘ وہ کہانی سنا سنا کر قصہ گوئی کے تمام اسرار و رموز اور باریکیوں کا نبض شناس ہو چکا تھا۔ سچ کو مبالغے سے مات دینے کا ہنر اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک خاندان کی کہانی سنا رہا تھا‘ جو اس کی دانست میں سارے کا سارا چور تھا۔ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس خانوادے کے بزرگ نے اپنا خاصا کاروبار ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نیشنلائزیشن حکمت عملی کی نذر کر دیا تھا۔ وہ سالوں سے ایک ایسے کنبے کی کہانی مرچ مصالحہ لگا کر سنا رہا تھا‘ جس کی بقول اس کے لامتناہی کرپشن کی کہانی پانامہ کے بجائے اقامہ پر منتج ہوئی۔ کہانی دراصل گزشتہ انتخابات میں بقول اس کے پنگچرز سے شروع ہوئی اور قصہ گوئی کے مبالغے نے اسے دھرنوں سے گزار کر عدالتی کارروائی تک پہنچا دیا۔ کہانی کار مختلف کروٹیں لیتا ہوا‘ اس نہج پر آ گیا‘ جب عدالتی فیصلے آنے شروع ہوئے اور کہانی کے سب سے بڑے مہرے کو ایوان وزیراعظم سے محروم ہونا پڑا‘ پھر جزوی اور کلی نااہلی کا فیصلہ آ گیا‘ اس طرح قصہ گو آگے اور آگے ہی بڑھتا رہا۔ اس کہانی کاری میں قصہ گو کا ایک اہم اور اے ٹی ایم ساتھی بھی سیاسی موت مارا گیا‘ لیکن اس نے کہانی کو منفی اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ٹھان لی تھی‘ سو وہ آگے اور آگے ہی بڑھتا رہا۔ قصہ گو اپنی دھن میں لہک لہک کر کہانی کاری کا جادو جگا رہا تھا کہ میاں شہباز شریف نے ایک انکشاف کر ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان قصہ خوانی بازار کے قصہ گو کی طرح مبالغے کے زور پر نواز شریف فیملی کی کہانی گھڑتا جا رہا ہے۔ اب یہاں دیکھا جائے تو شہباز شریف کو مبالغہ آمیزی کے بجائے حسن مبالغہ کی ترکیب استعمال کرنا چاہئے تھی‘ تاکہ عمران خان کی قصہ گوئی میرامن کی ماخوذ کہانی باغ و بہار کا قصہ چہار درویش بن سکتی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پھر عمران خان اس کہانی کے پہلے مبالغہ گو درویش ٹھہرتے اور ان کے ساتھ دیگر تین مبالغہ گو درویشوں کا سراغ بھی انتہائی سہل ہوتا‘ یعنی جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی اور بابر اعوان۔ اس طرح حسن مبالغہ کی یہ شاہکار کہانی اساطیری ادب میں رکھ لی جاتی اور پھر آنے والے ادب کے طالب علموں کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ پڑھائی جاتی‘ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ عمران خان قصہ خوانی بازار پشاور کی دیومالائی تاریخی حیثیت سے یکسر نابلد ہیں۔ پورے اردو ادب میں ’’مرزا ظاہر داد بیگ‘‘ ایسی بہت سی کہانیاں ملتی ہیں‘ جو اپنے اندر قصہ خوانی کے قصہ گو کا حسن مبالغہ اور اساطیری لب و لہجہ رکھتی ہیں۔ قصہ خوانی بازار کی سرائیں آج بھی افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے باب خیبر کے ذریعے داخل ہونے والے ان سیاحوں اور تاجروں کی راہ دیکھ رہی ہیں‘ جو یہاں کے قصہ گوؤں کے مبالغہ آمیز شیریں دھن سے نکلی کہانیوں میں میٹھی نیند کا مزہ لیا کرتے تھے۔ کہانی سناتے ہوئے ان قصہ گوؤں کے منہ میں گویا جلیبیاں رکھ دی جاتی تھیں‘ شیریں نطق کے ساتھ ساتھ شیرین دھن قصہ گو قصہ خوانی کے مسافروں کا دل موہ لیا کرتا تھا۔ یہ سب حسن مبالغہ کا کرشمہ تھا‘ جو آج بھی قصہ خوانی کے باسیوں کی گویائی میں موجود ہے۔ تقسیم برصغیر سے پہلے چونکہ قصہ خوانی کی ان سراؤں میں باب خیبر کی جانب سے خاص و عام کی کھلے عام آمدو رفت ہوا کرتی تھی‘ اس لئے یہاں کا قصہ گو ان سراؤں کا دیومالائی کردار بھی تھا‘ جس کے سنائے جانے والے قصوں میں اساطیری لب و لہجہ اور تہذیبی و تمدنی نطق ہوا کرتا تھا‘ وہ مشکل سے مشکل باتوں کواپنے مبالغہ آمیز لہجے سے آسان بنا دیتا تھا‘ اس کی عام گفتگو کا ایک ٹکڑا کچھ اس طرح سے تھا ’’وت بالاخانے تے بیٹھیا ایں تے کہ تکناں آں کہ دھاندل آئی اے‘ وت میرے اک ہتھ وچ چھ ڈزا ای‘ اک ہتھ وچ تبرای تے اک ہتھ وچ لالٹین ای‘ وت میں کدماری آتے ٹاہلی بہ ٹاہلی‘ ٹاہلی بہ ٹاہلی لہو رچا گیاں ای‘ تے وت اوتھوں کدماری آتے ٹاہلی بہ ٹاہلی پنڈی آیاں ای‘ تے میں بوہڑ ہوٹل چلا گیاں ایں‘ ہوٹل چ میں خان الہٰ داد خان نوں آکھیا ای کہ چاتے دے ناں‘ اس چادتی آتے میں آکھیا ای کہ ملائی تے پاناں‘ اس ملائی والی چادتی آتے میں فیر پی کے ٹاہلی بہ ٹاہلی پشور دے قصہ خوانی بالا خانے تے واپس آ گیاں آں‘‘ اب شہباز شریف کو کون سمجھائے ایسا حسن مبالغہ اساطیری ادب میں تو مل جاتا ہے‘ عمران خان کے لب و لہجہ میں عنقا ہے‘ یہی وجہ ہے عمران خان کی قصہ گوئی ان تمام ادبی لوازمات سے تہی ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ اس میں دلچسپی لے سکتے تھے۔
لہذا یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شہباز شریف نے عمران خان کو قصہ خوانی بازار کے قصہ گوؤں کی طرف متوجہ کر کے ایسی کہانی کاری کی جانب توجہ دلائی ہے‘ جس میں مبالغہ ہی نہیں حسن مبالغہ کا عنصر بھی شامل ہو۔ اس ضمن میں شہباز شریف کے دل کا احوال جانا جائے تو ان کی خواہش یہ بھی ہو گی کہ عمران خان کے اس قصہ چہار درویش کو مطبوعہ شکل میں سامنے لایا جائے تاکہ ان کی کہانی کاری تاریخ میں محفوظ ہو سکے۔ اس حوالے سے ہمارے ذہن میں آیا کہ عرفان صدیقی جو قومی ادبی و ثقافتی اداروں کے نگران وزیر ہیں‘ سے بھی گزارش کی جائے کہ وہ عمران خان کی قصہ گوئی کے فن پر کسی مستند ادیب یا محقق سے کتاب مرتب کرائیں اور اسے منظرعام پر لاتے ہوئے خود بھی اس اہم موضوع پر اظہار رائے کریں‘ تاہم عمران خان کی قصہ گوئی اگرچہ اساطیری اسلوب سے تہی ہے‘ لیکن ان کی سیاسی منظرنامے کی کہانی کاری کے بین بین ایک کہانی ان کی ذاتی بھی ہے‘ جو موصوف کی نت نئی شادیوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس کہانی میں اساطیری اور دیومالائی کردار ہیں اور اساطیری اسلوب بھی۔ اسے وہ خود ضبط تحریر میں لا سکتے ہیں اور اس طرح اپنی جملہ تخلیقی صلاحیتوں کا بخوبی اظہار بھی کر سکتے ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوا تو عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ بکھری اور ریزہ ریزہ کہانیاں کسی کی بھی میراث نہیں ہوا کرتیں‘ اگر کسی اور قلم کار نے طبع آزمائی کر دی تو پھر کیا ہو گا؟ یقیناً یہ صورت حالات خود عمران کے لئے بھی قابل قبول نہیں۔ یہ رومانوی کہانیاں تو بہت سی ہیں‘ جمائما کی کہانی‘ گلہ لائی کی کہانی‘ ریحام خان کی کہانی‘ سیتاوائٹ کی کہانی اور پیرنی صاحبہ کی کہانی‘ ضروری نہیں یہ سب کہانیاں عمران خان کے لئے سبکی کا باعث ہوں اور انہیں عبرت کا سامان پہنچے‘ یہ کہانیاں ہماری تاریخ کا حصہ بھی ہیں‘ ان سے عمران خان کی حقیقی شخصیت نگاری میں بھی مدد ملے گی ورنہ آنے والا پاکستانی نوجوان اپنے بزرگوں سے پوچھا کرے گا‘ یہ عمران خان کون تھے؟ پھر جب اسے بتایا جائے گا کہ قصہ خوانی جیسا قصہ گو تھا تو وہ شریف فیملی کی کہانی عمران خان کی زبانی بھی جاننا چاہے گا‘ یہ کہانی سن لینے کے بعد آئندہ نسل کا نوجوان عمران خان کی کہانیوں میں بھی دلچسپی ظاہر کرے تو پھر کیا اسے قصہ خوانی بازار کا راستہ بتایا جائے؟ کون ہے جو فی الوقت اس کا جواب دے؟ تاریخ ہی بتائے گی یہ سب کہانیاں کیا تھیں؟؟؟

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن