پشتون تحفظ تحریک کا ابھرنا ایک خوش آئندامر ہے۔جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 62سالہ منظور پشتین کی سربراہی میں ابھرنے والی اس تحریک نے پشتونوں کی سیاسی شناخت کو غیرمعمولی طور پرتبدیل کر دیا ہے جسے اسکے وسیع تر تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے کیونکہ اسکے اثرات پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے تمام پشتونوں پریکساں مرتب ہونگے۔یہ ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد پشتون قوم کو ملک کے بڑے سیاسی دھارے میں باوقار مقام دلانا ہے۔نامور شخصیات’ سیاسی قائدین خصوصا افغانستان کے صدر نے پشتون تحفظ تحریک پر اپنے اپنے تبصرے کئے ہیں جس سے اس تحریک کے خدوخال کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔
٭ صدر افغانستان’ جناب اشرف غنی
’’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اورانتہا پسندی کیخلاف ایک مثبت قدم ہے جو اخلاقی طور پر ہم سب کو پابند کرتا ہے کہ اسکی تائید کریں کیونکہ یہ خدائی خدمتگار باچا خان مرحوم کی امن پرستی کے فلسفے کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے اور تمام افغانوں کیلئے لازم ہے کہ اس مقدس جدوجہد کی حمایت کریں۔ پشتین کی اخلاقی مدد کا مطلب پاکستانی معاملات میں مداخلت ہر گز نہیں ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب رہنے والے پشتون ‘‘ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔‘‘
چیف آف آرمی سٹاف ’پاکستان جنرل قمر باجوہ کہتے ہیں: ’’پشتون تحفظ تحریک ہائی برڈ جنگ کا ایک حصہ ہے جس کی منصوبہ بندی ہمارے دشمنوں نے کی ہے۔’’ ان کا بیان’ افغان صدر اشرف غنی کے بیان اور پشتون تحفظ تحریک کے اس نعرے کا فطرتی رد عمل ہے: ‘‘دہشت گردی کی پشت پناہی وردی والے‘ خصوصاً انٹیلی جنس ادارے کر رہے ہیں۔’’ قومی ادارے کیخلاف ایسی زبان انتہائی غیر مناسب اور بنیادی مسئلے کو سبو تاژ کرنے کے مترادف ہے۔
٭ پشتون سیاسی جماعتوں کا رد عمل
٭ عوامی نیشنل پارٹی نے محتاط انداز میں پشتون تحفظ تحریک کے اقدام کی حمایت کی ہے۔
٭ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی نے تحریک کی مکمل حمایت کی ہے حالانکہ پشتون تحفظ تحریک کے محرکین فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں شامل کئے جانے کے حمایتی ہیں جبکہ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اسکی مخالف ہے۔
٭ جمعیت علمائے اسلام(ف) اور جمعیت علمائے اسلام (س) دونوں جماعتوں نے ابھی تک اس تحریک کی حمایت نہیں کی۔تحریک کے قائدین کیخلاف درج مقدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے غالبا یہ جماعتیں حکومت اور عسکری ہائی کمان کے رد عمل کی پیروی کریں گی۔
٭ دیگر سیاسی جماعتیں ’ مثلاً پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے فی الوقت اس تحریک سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ ہمارے میڈیا کے تجزیہ کاروں نے اس تحریک کو خوش آئند قرار دیا ہے:
٭ ’’حالیہ ہفتے کے دوران پشتون تحفظ تحریک نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔8 اپریل کو پشاور میں منعقد ہونیوالی ریلی میں عوام کی بھر پور شرکت نے اس امر کو تقویت بخشی ہے کہ تحریک کے مقاصد فاٹا اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام کے مسائل کی صحیح ترجمانی ہے۔‘‘
٭ ’’متعدد مواقع پر پشتین اور اس کے پیروکاروں نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ انکی تحریک پاکستانی آئین کے عین مطابق ہے۔اس تحریک کے مطالبات میں’قومی دھارے میں شمولیت’ گم شدہ لوگوں کی بازیابی’ ماورائے آئین قتل و غارت کا خاتمہ’ فاٹا کے معاملات میں حکومتی بے حسی اور بنیادی آئینی مراعات کا حصول شامل ہیں۔‘‘
٭ ’’ہمیں پشتون تحفظ تحریک کو تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ تحریک کے نوجوان قائدین اور ریلیوں میں شامل ہونیوالے عوام نے گذشتہ چار دہائیوں میں دیگر تمام معاشروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دہشت گردوں اور ناکام حکومتی پالیسیووں کے ہاتھوں ستم اٹھائے ہیں۔ پاکستان تحفظ تحریک سول سوسائٹی کے متحرک ہونے کی اعلیٰ مثال ہے جو نچلی سطح سے ابھری ہے اور اسکے مطالبات پاکستانی آئین کے عین مطابق ہیں۔اگر ان مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا تو اس سے وفاق مضبوط ہوگا اور پشتون تحفظ تحریک کی وساطت سے ہم وہ کچھ حاصل کرسکیں گے جس کے حصول کیلئے ہماری سیاسی قوتیں عرصہ دراز سے کوشاں ہیں لیکن ابھی تک حاصل نہیں کر پائے۔‘‘
٭ ’’عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے برخلاف منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون تحفظ تحریک نچلی سطح کے عوام کی تحریک ہے جس پرکسی قسم کا سیاسی بوجھ نہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حاصل بنیادی شہری حقوق پر سودے بازی کرے۔
فاٹا کا مسئلہ پشتون تحفظ تحریک کا مرکزی نقطہ ہے لہذا سوات اور دیر کے مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے فاٹا کے انضمام کا معاملہ فوری طور پر حل کرنا لازم ہے۔کیونکہ 1969ء میں سوات اور دیر کو پاکستانی قوانین کے تابع لایا گیا تھا لیکن عدل و انصاف کی فراہمی میں غیر معمولی تاخیراور معاشرتی بگاڑ پھیلنے کی وجہ سے دس سالوں کے اندر اندر عوام نے اس حکم کو معطل کرنے کا مطالبہ کردیا۔عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جنہیں‘ بغاوت’ کا نام دیکر ریاستی طاقت کے بل بوتے پر کچلنا چاہا مگر اس دوران مولانا صوفی محمد‘ فضل اللہ‘ خالد خراسانی اور دیگر لوگ منظر عام پر آئے جس کی وجہ سے احتجاج کی لہر پڑوسی قبائلی علاقوں تک پھیل گئی اور مجبوراً فوج کو وزیرستان میں داخل ہوناپڑا جس سے ہماری روزمرہ کی زندگی میں نہ ختم ہونیوالی دہشتگردی کا سلسلہ ہے۔پشتون تحفظ تحریک کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘پشتون تحفظ تحریک کا معاشرتی تحریک کے طور پر ابھرنا پاکستان کیلئے غیرمعمولی ہونے کی دلیل ہے جہاں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی آواز’شہریت اور میڈیا اپنے حقوق کے حصول کی کوشش کرنے میں آزاد ہیں۔ریاست کیلئے بھی ایک موقع ہے کہ وہ ایسا تاثر دے جس سے عیاں ہو کہ وہ معاشرے کے محروم’ ناراض اور ناانصافی کاشکار طبقات کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ’’در حقیقت اس طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تذویراتی روابط مضبوط ہونگے جو افغان طالبان کی تحریک سے پیدا ہوئے ہیں۔افغان طالبان ایک ناقابل شکست قوت ہے جو کراچی میں رہنے والے پچاس لاکھ سے زائد پشتونوں سے لے کر کوہ ہندوکش تک اور اس سے آگے آمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔در حقیقت یہ منظر نامہ ملا عمر کے نظریہ تصادم کی عملی تصویر ہے جس کا اظہار انہوں نے 2003ء میں ہمارے نام ایک پیغام میں کیا تھا: ‘‘پاکستان نے ہمارے خلاف جنگ میں ہمارے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے لیکن اسکے باوجود ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری منزل اور قومی سکیورٹی کے مفادات مشترک ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے پشتون اپنے اپنے ملک کے مکمل طور پر وفادار ہیں لیکن جدوجہد آزادی میں یکجان ہیں اور کوئی طاقت انہیں پشتون نفسیات کے برعکس ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پشتونوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انہیں کو سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔اب قائد اعظم کی منطق کی جانب لوٹ آنے کا وقت ہے۔