لیڈر شپ

نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال نے یہ بات اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے سارے مراحل کے بعد کہی تھی یا اپنی نظریاتی سوچ کو الفاظ میں بیان کر کے ایک حکیمانہ راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ ’’قومیں شعرا کے دل میں جنم لیتی ہیں، سیاستدانوں کے ہاتھوں چلتی، پھلتی پھولتی اورمر جاتی ہیں‘‘ اس دانشمندانہ قول کو میں نے اپنے ملک کی قیادت اور دنیا میں ترقی پانے والے ممالک کی قیادت کے طرز عمل میں تلاش کیا۔ جنہوں نے اپنی قوم کو پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کا موقع فراہم کیا اور جنہوں نے اپنی کوتاہ فہمی ، خود غرضی، جہالت یا مفاد پرستی سے قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ پاکستان کے حوالے سے تو قائداعظم کے بارے میں آئرلینڈ کی اس چہرہ شناس خاتون پارکر کی بات کے بعد کسی مزید گواہی یا ثبوت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی جس نے 1928ء میں سروجنی نائیڈو کی موجودگی میں قائد اعظم کا چہرہ دیکھ کر کہہ دیا تھا ’’یہ شخص اپنی ہی سلطنت کا بادشاہ ہوگا‘‘ اور پھر قائد اعظم نے قیادت کا جو حق ادا کیا اس پر دنیا بھر کے مفکرین انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
قائد اعظم کی صحبت میں رہنے والوں نے بھی قیادت کے بنیادی اوصاف کو اپنی نجی اورسیاسی زندگیوں میں بہت اہمیت دی اور پھر پاکستان میں ایسے ایسے افراد کو حالات کے جبر کے تحت قیادت کے منصب پر قبول کرنا پڑا جنہیں شاید قائداعظم محاورے کی زبان میں اپنے حقہ کی چلمیں بھرنے کی اجازت بھی نہ دیتے۔ کوڑھ مغز بھی ہو اور مفاد پرست بھی، بدکردار بھی ہو اور خائن بھی اپنی جہالت چھپانے کے وصف سے ناآشنا بھی ہو اور قومی راز اچھالنے کو اپنے باخبر اور بااختیار ہونے کا حوالہ سمجھنے والا قومی اداروں کو اپنی ہولناکی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھانے کی عادت اور شہرت کے باوجود اس سے توبہ کرنے یا اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسی پر اتراتا پھرے جسے نہ اپنے منصب کے وقار کا پتہ ہے نہ اپنے فرائض سے آگاہی جس کی تعلیم، تربیت اور اخلاقی قدریں اس پر انسان ہونے کی تہمت لگانے کی بھی مخالفت کریں اگر ایسا شخص منصب اقتدار پر براجمان ہو جائے تو قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دو سپرپاورز میں سے خود کو مضبوط کرکے مخالف سپرپاور کے حصے بخرے کرنے والے امریکہ کے صدر کی سنجیدہ سوچ اور مدبرانہ اپروچ کے نتیجہ میں ہی روس تباہ ہوا اور امریکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور بن گئی۔
امریکہ کے اس صدر ریگن کی حسِ مزاح میں بھی قومی غیرت اور اپنی متحارب سپرپاور روس کے حوالے غالب رہے۔ بہت ہی سطحی مذاق میں بھی اگر کبھی روس کو ہدف بنتے دیکھا تو اسے صدر کی زبان سے ادا کر کے اور معززین کی محفل میں سنا کر صدر ریگن نے اپنی سوچ، ظریفانہ حِس اور فاتحانہ انداز کا موثر ابلاغ کرا دیا۔ ایسے ہی ایک تقریب میں صدر ریگن نے کہا کہ وہ روس کے بارے میں کچھ مزاحیہ باتیں، واقعات یا لطیفے جمع کر رہے تھے تاکہ ان کی شکست خوردگی کو بھلانے میں مدد کریں۔ ’’ایک امریکی افسر اپنے روسی ہم منصب سے کہہ رہا تھا کہ مجھے امریکہ میں آزادی ایسی نعمت میسر ہے میں وائٹ ہائوس میں جا کر امریکہ کے صدر کی میز پر مکا مار کر اس کے منہ پر کھڑے کھڑے کہہ سکتا ہوں مسٹر پریذیڈنٹ جس طرح آپ ملک چلا رہے ہیں آپ کا یہ انداز مجھے ہرگز پسند نہیں روسی افسر بولا یہ آزادی تو مجھے بھی حاصل ہے میں بھی اپنی حکومت کے سربراہ اور کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے دفتر میں جا کر اس کی میز پر مکا مار کر کہہ سکتا ہوں مسٹر جنرل سیکرٹری جس انداز سے امریکہ کا صدر ریگن حکومت کر رہا ہے مجھے وہ انداز ہرگز پسند نہیں ۔ صدر ریگن نے ہنس کر حاضرین سے کہا میں نے مسٹر گورباچوف کو یہ بات نہیں بتائی۔ صدر ریگن نے کہا کہ روسی معیشت کی گراوٹ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے گاڑی خریدنے کا عمل کافی پیچیدہ بن گیا۔ طریق کار کے مطابق آپ کو گاڑی کی قیمت ایڈوانس جمع کرانا ہوتی ہے اور پھر اسکی ڈلیوری کی تاریخ کئی سالوں بعد دی جاتی ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے پیسے جمع کرائے اسے رقم وصول کرنے کی رسید کے ساتھ ہی یہ خوشخبری دی گئی کہ آج سے دس سال بعد آپ آ کر اپنی نئی نویلی گاڑی لے جائیے۔ گاہک نے پوچھا دس سال بعد دی گئی تاریخ کی صبح یا بعد دوپہر ، سیلز مینجر نے کہا دس سال بعد آنے والے دن کی صبح اور بعد دوپہر میں کیا فرق ہے، گاہک نے کہا دراصل اس دن میرا پلمبر صبح کے وقت آ رہا ہے۔ کار کے حوالے سے ہی صدر نکسن نے حاضرین کو بتایا کہ روس میں سات خاندانوں میں سے ایک کے پاس کار ہوتی ہے زیادہ تر کاریں بیوروکریٹس ہی چلاتے ہیں ۔ ایک دن یہ حکم نامہ جاری ہوا کہ پولیس تیز رفتاری پر کسی کو معاف نہ کرے تیز رفتاری کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کا چالان کرنا ہے۔ گوربا چوف اپنے دفتر جانے کیلئے نکلا اسے دیر ہو رہی تھی اس نے اپنی لیموزین گاڑی کو خود چلاکر جلد دفتر پہنچنے کا فیصلہ کر لیا۔ڈرائیور صدر کے موڈ کودیکھ کر پیچھے جا بیٹھا ۔ صدر گورباچوف کی لیموزین دو موٹر سائیکلوں کو پیچھے چھوڑ کر ہوا سے باتیں کرتے نکل گئی۔
سارجنٹ نے ہیوی بائیک بھگائی لیموزین کوکراس کیا ڈرائیور کو روکنے کی بجائے اور ٹکٹ دینے کی بجائے اسے جانے دیا اس عجیب و غریب حرکت پر اس کے ساتھی سارجنٹ نے کہا تم نے اسے ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔ نہیںدے سکتا تھا۔ میں دراصل گاڑی میں بیٹھے ہوئے اہم ترین شخص کو تو نہ پہچان سکا البتہ اس کا ڈرائیور گوربا چوف تھا۔ صدر ریگن کے لطائف میں قومی سوچ اور مخالفین کی کمزوریوں کا ٹھٹھہ اڑانے سے ہمارے ہاں کی قیادت کو یہ سمجھ تو آ گئی ہو گی کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے والی لیڈر شپ اور اپنی ایمپائر بڑھانے والی لیڈر شپ میں بس یہی فرق ہے کہ وہ لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ہماری لیڈر شپ جو کسی قومی سوچ سے محروم ہے اس کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں بلکہ وہ اپنی حرکتوں اور کاموں سے عوام سے مذاق اڑواتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن