اسلام آباد(عترت جعفری)وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا بطور وزیر خزانہ کا 8ماہ سے ذائد دور وزارت ہنگامہ خیز رہا ،وہ جب جھنڈاا اتری کا ر میں واپس جارہے تھے تو انہوں نے قطعی انداز میں یہ کہہ کر کابینہ میں آنے کا معاملہ صاف کر دیا کہ اگر جھنڈے کو شوق ہوتا تو دوسری وزارت لے لیتا ،ان کی ایک نازک مرحلہ پر وزارت سے علیحدگی نے کئی سوالات پیدا کئے ہیں ،بجٹ کے آنے میں ایک ماہ باقی ہے ،دوہفتے میں آئی ایم ایف کی ٹیم آنے والی ہے،جی ڈی پی گروتھ گر رہی ہے ،اور سب سے بڑھ کر حکومت کے فلیگ شپ منصوبوں کے لئے بھاری مالی وسائل درکار ہیں ،اسد عمر کے ہٹانے جانے میں کس وجہ نے ذیادہ کردار ادا کیا اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اسد عمر اپوزیشن کرتے کرتے اچانک وزیر خزانہ بنا دئے گئے ،ان کو قومی معیشت کو چلانے کا تجربہ نہیں تھا ،تمام تر جوش کے باوجود وہ اس کی جہتوں کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکے ،روپے کی قدر میں کمی نے عوام کو شدید متاثر کیا ، آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام طے کرنے میں بھی تاخیر ہوئی، اور معاشی مسائل بھی جوں کے توں رہے ،اسد عمر پارٹی کے اندر بھی اپنی مخالف لابی کی لابی پر بھی نظر نہیں رکھ سکے ، ن ناتجربہ کاری کے باعث وہ اس کارکردگی کانطاہرہ نہیں کر سکے جس کہ ان سے توقع کی جارہی تھی ، دو ماہ پہلے بھی ان کی تبدیلی کی بات پھیلی تھی تاہم پھر معاملہ دب گیا تھا ،گذشتہ چند روز سے پی ٹی آئی ہء کے کچھ حلقے پھر تبدیلی کی خبر دے رہے تھے جو درست ثابت ہوئی ،ڈاکٹرحفیظ شیخ ان کی جگہ لیں گے،ڈاکٹر حفیظ شیخ پی پی پی کے دور میں کئی سال وزیر خزانہ رہے ، وہ پی پی پی کے سینٹر بھی رہے اور حکومت کی میعاد ختم ہونے سے چند ماہ قبل مستعفی ہوئے تھے ،پی ٹی آئی پی پی پی پر قرضے 15 ٹریلین تک پہنچانے کا الزام لگاتی رہی ہے ،اس دور میں مختصر مدت کے لئے شوکت ترین اور سلیم مانڈوی والا مشیر اور وزیر خزانہ رہے کبکہ باقی ماندہ عرصہ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ رہے ۔نئے مشیر خزانہ کے لئے چیلنجز کی کمی نہیں،وہ میڈیا میں آنے سے بھی کتراتے ہیں، اور ان کو آتے ہے بہت ٹاسک مکمل کرنا ہوں گے۔ وزیر کے ساتھ مشیر کا ماڈل پہلے استعمال کر لیا جاتا تو اسد کی اس انداز میں چھٹی کی ضرورت نہ رہتی۔