ایک سماجی تنظیم نے مطا لبہ کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ذہنی معزور افراد رہتے ہیں بالخصو ص وہ لو گ جو پا گلوں کی طر ح سڑ کوں بازاروں اور گلیوں میں پھر رہے ہو تے ہیں ۔ انہوں نے ہا تھوں میں اینٹ یا کوئی اور چیز پکڑی ہو تی ہے وہ آنے جا نے والے مر د و خوا تین یا پھر کسی کار سوار کو دھمکا تے ہیں اور پھر بہت سارے لو گوں کو زخمی کر دیا جا تا ہے اور کاروں کو نقصا ن پہنچتا ہے ۔ مطا لبے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے افراد کو گر فتار کیا جا ئے جو را ہگیروں کو زخمی کر کے انہیں نقصا ن پہنچا رہے ہیں ۔ ایسے لو گوں کی کہیں بھی کمی نہیں ہے اور ہر شہر میں پائے جا تے ہیں چند لو گ تو واقعی بیمار ہو تے ہیں جو کسی ذہنی دبائویا کسی تکلیف کی وجہ سے خو د پر اختیار نہیں رہتا ۔
ظلم بالائے ستم کہ ان کو اپنے گھروالوں نے بھی کھلا چھوڑا ہو تا ہے ، بجائے اسکے انہیں حفا ظت میں رکھا جا ئے اپنے گھر میں اسکا خیال رکھا جائے۔ ایسے مریض بچوں کو تو بہت پہنچا ہوا سمجھا جا تا ہے اور ایسے لو گوں کو دور دور سے مر د و خواتین دیکھنے جا تے ہیں اور جب وہ بڑے ہو تے ہیں تو انہیں مزید خطا با ت اور القا بات سے نوازا جا تا ہے جو عا م مخلو ق کیلئے شدید مشکلا ت کا باعث بنتے ہیں ۔
ڈیرہ غازیخان میں جہاں اور بہت سارے ترقیاتی منصو بہ جا ت کو عملی جا مہ پہنا یا جا رہا ہے اور یہ واقعی پھلاں دا سہرا بنے گا تو منا سب ہو گا کہ ایک مینٹل ہسپتال بنا یا جائے تا کہ ایسے ذہنی مریضوں کو دا خل کر کے ان کا علا ج کیا جائے تا کہ صحت مند ہو کر وہ سود مند شہری بن سکے ۔ لنگر خا نے بن چکے پنا ہ گاہیںبن چکی ہیں تو منا سب ہو گا کہ ایک چھوٹا سا مینٹل ہسپتال بھی بنا دیا جائے۔
لنگر خا نے اور پنا ہ گا ہوں میں بھی مزدور طبقے کے سا تھ ایک بڑی تعداد ان افراد کی بھی فیضیاب ہو رہی ہے جو غریب اور مہنگا ئی کے مارے لو گوں کی ہے ۔ بے روزگاری کے ستائے لوگ بھی مو جو د ہو تے ہیں۔ ہماری معیشت کی زبوں حا لی میں کر و نا وا ئرس کے پھیلا ئومیں بھی کوئی کمی نہیں اور نجا نے یہ بیماری کب تک رہے گی۔ لنگر خا نوں پنا ہ گا ہو ں میں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفا تر کے با ہر قطاریں طویل ہو تی جا ئیںگی ۔ اسی لیے یہ مطا لبہ ہر لحا ظ سے جا ئز اور بر وقت نظر آتا ہے کہ مینٹل ہسپتال بھی بن جائے تو بہتوں کا بھلا ہو گا۔
ایک مسئلہ تو سامنے رکھ دیا گیا ہے اس طر ح کا ایک اور مسئلہ بھی در پیش ہے جس سے ہر شخص پریشان اور دلبر دا شتہ نظر آتا ہے ۔ یہ پریشا نی آوارہ کتوں کی بہتات ہے جس کی وجہ سے عا م آدمی کا پیدل چلنا تو محا ل ہے جسمیں خوا تین اور بچوں کو مشکلات زیا دہ ہیں جو گھر سے با ہر نکلتے ہیں تو کتوں کے غول راہ روک لیتے ہیں کوئی شخص اگر صبح یا شا م کو محض وا ک کر نے کیلئے گھر سے نکلے تو صحت منداور چند آوارہ کتے گھر کی دیوار کے سائے میں آرام کر رہے ہو تے ہیں ۔ یہ تما شا بھی سر بازار دیکھا کہ ان آوارہ کتوں نے عا م لوگوں کی آمد و رفت بند کی ہوئی ہے ۔
مر د و زن خو فزدہ اس لیے بھی ہوتے ہیں کہ آخر ان کا مقا بلہ کیا جائے ۔ اینٹ اٹھا ئے کتوں کے پیچھے بھا گنا تو ایسے ہی ہو گا جیسے چند ذہنی معذور اینٹ اور پتھر اٹھا ئے چنگے بھلے را ہ چلتے لو گوں کو مارتے ہیں یا ڈرا تے ہیں ، گاڑیوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں ۔ راہ گیر اکٹھے ہو جا تے ہیں تو قصور کار والے کا نکلتا ہے یا پھر اس شخص کا جو اپنے نقصا ن پر احتجاج کر رہا ہو تا ہے یا پھر اپنے سر پھٹوں کا قصہ بیان کر رہا ہو تا ہے لو گ کہتے ہیں کہ وہ بیچا رہ تو پا گل ہے ، مجنو ں ہے آپ تو ٹھیک ہیں بندہ جو ذہنی طور پر مفلو ج ہے اسے گھر میں بند رکھنے کے لیے کھلا چھوڑ ا ہوا ہے ۔
اسی طر ح ایسے لو گوں کے بارے میں با ت کر نا بھی ہمارے معا شرے میں منا سب نہیں سمجھا جاتا۔ آوارہ کتوں سے تنگ آ ئے ہوئے لو گ اگر ان پر سنگ بار ی کریں تو الٹا انہیں پا گل کہا جا تا ہے ۔ کسی محکمے یا کسی ادارے کو اپنے فرا ئض کا احساس نہیں ہے، محکمہ صحت والے کہتے ہیں کہ یہ کارپوریشن کا کام ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آوارہ کتوں یا با ئو لے کتوں کو زہر دینا محکمہ صحت کا کا م ہے ۔ شہری تو ان دو محکمہ جا ت کے در میان سینڈوچ بنا ہوا ہے ۔ ضلعی اور ڈویژنل انتظا میہ کے اعلی افسرا ن محض میٹنگ میٹنگ کھیل رہے ہو تے ہیں انہیں عا م آدمی کے مسا ئل کا ادرا ک نہیں ہے ۔ یا وہ ایسے مسا ئل کے حل میں دلچسپی نہیں لیتے وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا وقت گزا ریں اور پھر کسی دوسرے ضلع میں پو سٹنگ کرا لیں گے ، ٹیچنگ ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں دل کے دورے میں اہم ٹیکہ دستیاب نہیں ہو تا ، خوا تین ہسپتال کے سا یہ دیوار میں بچے جنم دیتی ہیں ، آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے آئے روز قیا مت بر پا ہو تی ہے ۔ کتے کے کا ٹنے کی ویکسین تو ہو تی نہیں ۔
ایسے انجکشن تو یہاں دستیاب نہیں ہو تے لو گ اپنی مدد آپ کے تحت علا ج کر تے ہیں ۔ حر ف آخر کے طور پر اور اپنے مضمون کو سمیٹتے ہوئے یہ عر ض کر دوں کہ مو ضو ع ایک ہی ہے اور کر دار بھی ایک ہی ہے ۔ ذہنی معزور اشخا ص کیلئے ہسپتال کا مطا لبہ سا منے آیا ہے ۔ یہ وہ لو گ ہیں جو گھر وں سے با ہر نکل کر اینٹ یا پتھر اٹھا کر را ہ چلتے لوگوں کو مارتے ہیں یا پھر کا روں پر سنگ زنی کر تے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ ایسے مجنون لو گوں کو گھر میں حفا ظت سے رکھا جائے انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جس سے آئے روز واقعات ہو تے رہتے ہیں ۔
دوسری طر ف ذہنی طور پر صحت مند لوگ آوارہ کتوں کے پیچھے بھا گ رہے ہو تے ہیں ۔ پہلے تو ایسے لو گوں کا گھر سے با ہر نکلنا محا ل ہے اور اگر باہر نکلیں تو ان پر پہلے پہل آوارہ کتے حملہ آور ہو تے ہیں تو بے بسی کے عا لم کوئی اینٹ یا پتھر ہا تھ ہی نہیں لگتا تو وہ یہی کہتے ہیں کہ سنگ و حشت مقید ہیں اور سنگ آزاد!
سنگ وحشت مقید ہیں اور سنگ آزاد
Apr 19, 2021