اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

حکیم الامت ڈاکٹرسرعلامہ محمد اقبال کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ور پیدا
اللہ پاک نے آپ کے کلام کو بے پناہ مقبولیت ، تاثیر اور سوزو گداز عطا فرمایا۔ کسی مقرر کا بیان اور کسی لکھاری کی تحریر آپ کے اشعار کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ اہل نظر جانتے ہیں کے آپ کا یہ مقام اور مرتبہ عشق سرکاردوعالمؐ کی وجہ سے تھا۔ علامہ خود فرماتے تھے کہ’’ہماری آبرو آپ ؐکے نام نامی کی بدولت ہے۔ ‘‘ علامہ اقبال حب رسولؐ میں سرشار رہتے تھے۔فقیرسید وحید الدین لکھتے ہیں’’ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز ، محبوب اور قابل قدر وصف جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی، اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضورؐ کا نام ان کے سامنے لیا ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کے کہ ہچکی بندھ جاتی تھی، آواز بھرا جاتی تھی اور کئی کئی منٹ مکمل سکوت کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو رکھ سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔ ‘‘
اقبال کا کلام اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہے۔۔کلام اقبال کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے اور پوری دنیا میں عقیدت اور محبت سے پڑھا جاتا ہے۔
علامہ اقبال فرد کی تعلیم و تربیت، شخصیت سازی اور کردارسازی پر زور دیتے تھے۔ کیونکہ افراد قوم کے اعضائے ترکیبی ہیں اور افراد سے ہی قوم کی تشکیل ہوتی ہے۔ آپ نے شاعری سے فرد کی تربیت اور خودی کو بیدار کرنے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ماہرین معاشرتی علوم اس حقیقت پر متفق ہیں کہ آبادی، جغرافیہ اور وسائل کے ساتھ قوم اور معاشرہ کی تشکیل نظریات،  افکاراوراقدار سے ہوتی ہے۔ افکار سے رویوں کی تشکیل ہوتی ہے اور پھر یہ رویے کسی قوم کو اقوام عالم میںمقام دیتے ہیں۔
جہان تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمو
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا 
طویل عرصہ پر محیط دورغلامی نے برصغیر کے مسلمانوں کو افکار تازہ اور بصیرت سے محروم کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تھے اور اعتماد جیسی طاقت سے محروم ہوگئے تھے۔برصغیر کے عوام  کی خوش نصیبی کہ اللہ تعالی نے حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی صورت میں ایک عظیم مفکر عطا فرمایاجس نے ولولہ انگیز کلام سے مردہ دلوں کو زندگی دی۔آپ غلامی کو لعنت سمجھتے تھے اور فرد کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ آپ نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا شعور دیا۔ فرمایا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
آپ کے اہم ترین مخاطب نوجوانان ملت تھے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو جھنجھوڑا اور ان میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال نے’’ بانگ درا‘‘ کی ایک نظم’’ خطاب بہ نوجوانان اسلام ‘‘ میں ان کو شاندار ماضی یاد دلایا۔
 کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
اقبال نوجوانوں میں عقابی روح پیدا کرکے امت مسلمہ کا مرد مومن اور شاہین بنانا چاہتے تھے۔ آپ نے نوجوانوں کو راہ عمل پر گامزن ہونے کا درس دیا ، مایوسی سے بچایا اور زندگی کی نئی امید پیدا کی۔
نہیں  تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
آپ کے انقلابی پیغام سے خواب غفلت کا شکار قوم بیدار ہوئی،نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوااور چشم فلک نے کرہ  ارض پر ایک نئی اسلامی مملکت کو معرض وجود میں آتے ہوئے دیکھا۔آپ صرف مفکر پاکستان اور مفکر اسلام ہی نہیں تھے بلکہ مفکر عالم بھی تھے۔ علامہ کی حیات میں  دنیا کے بڑے بڑے فلسفی آپ سے رہنمائی لیتے تھے اور وصال کے بعد بھی آپ کے افکار سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ساری دنیا کے مسلمان آپ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں لیکن ترک بھائیوں کی محبت تو کمال ہے۔  مجھے یہ پڑھ کردلی مسرت ہوئی کے ترک قوم نے علامہ اقبال سے عقیدت کی بنا پر مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے احاطہ میں آپ کی ایک علامتی قبر بنائی ہوئی ہے۔
آپ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر تعطیلات  ہوتی تھیں جوختم کردی گئیں۔عقیدت اور محبت سے تقریبات منعقد کی جاتی تھیں سیمینارز ہوتے تھے لیکن اب عوامی سطح پراور حکومتی سطح پروہ جوش و جذبہ نظر نہیں آتا۔ ادارہ نوائے وقت کی خدمات قابل تحسین ہیں جو ادارتی صفحات پر آپ کا کلام باقاعدگی سے شائع کر رہا ہے اور کبھی بھی خصوصی اشاعت اور تقریبات کے انعقاد سے غافل نہیں ہوا۔ علامہ اقبال کے کلام کو سمجھنے اورعام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا کلام زندہ اور جاوید ہے جوآج بھی تعلیم و تربیت اور اصلاح معاشرہ کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ حضرت علامہ کے فلسفہ پر عمل کر کے ہی پاکستانی قوم دنیا میں اپنا مقام بنا سکتی ہے۔ آپ کے اردو اور فارسی کلام کا فہم عام قاری کیلئے تھوڑا مشکل ہے اس کے لیے ماہرین اقبالیات کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ماہرین اقبالیات اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال اکیڈمی اس مسئلہ پر توجہ فرمائے اوراس کمی کو پورا کرنے کا اہتمام کرے۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن