اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ بیک چینل کی کیا ضرورت ہے؟ شرمانا اور پردہ کیسا ہے؟۔ دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مسائل ہیں، وہ آئے اور بیٹھ کر بات کرے۔ دونوں ایٹمی قوتوں کے پاس مذاکرات کے علاوہ کیا کوئی اور راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے کشمیریوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔ بھارت 5 اگست کے فیصلے پر نظرثانی کرے، پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی بیک چینل رابطہ نہیں ہے۔ بیک چینل کی ضرورت کیا ہے؟۔ کشمیر‘ سرکریک اور پانی کے مسئلے پر بیٹھ کر بات کریں۔ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات پر نظرثانی کرتا ہے تو ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ بہت سے ممالک افغانستان میں قیام امن کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ترکی نے بھی اس حوالے سے ایک کانفرنس رکھی ہے۔ ہماری خواہش ہو گی طالبان اس کانفرنس میں شرکت کریں۔ تمام فریقین مل کر آپس میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ امن آئے گا تو معیشت بہتر ہو گی۔ ہمارے لئے اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو افغانستان کے وزیر خارجہ حنیف اتمر کا فون آیا۔ اس ملاقات کے دوران، دونوں وزرائے خارجہ نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے طریقوں اور ذرائع اور افغان امن عمل میں تازہ ترین پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ قریشی نے دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے اور افغان امن عمل کو آسان بنانے کے لئے پاکستان کی مستقل پالیسی پر زور دیا۔ پاکستان کی سہولت بخش حمایت کے نتیجے میں امریکہ طالبان امن معاہدہ ہوا اور اس کے نتیجے میں انٹرا افغان مذاکرات ہوئے۔ وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغان جماعتیں پرامن ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے تعمیری کام کریں گی۔ امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے موقع پر، وزیر خارجہ نے غیر ملکی افواج کے منظم اور ذمہ دارانہ انخلا کی حمایت کرنے کے لئے پاکستان کی مستقل پالیسی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ غیر ملکی افواج کا انخلا امن عمل میں ہونے والی پیشرفت کے موافق ہوگا۔ وزیر خارجہ قریشی نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو گہرا کرنے کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ قریبی مشاورت جاری رکھنے کے پیش نظر، وزیر خارجہ نے استنبول میں اجلاس کے بعد اپنے افغان ہم منصب کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ افغان وزیر خارجہ نے دعوت قبول کر لی۔ افغان وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر نے افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستان کی مسلسل سفارتی، سیاسی اور اخلاقی معاونت کو سراہتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔دبئی میں افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یو اے ای سے تہران جاؤں گا۔ ایران کے بعد ترکی جاؤں گا۔ سفارت کاروں کا بھی کڑا احتساب کیا جائے گا اور سعودی عرب میں جن سفارت کاروں کی شکایات ملی ہیں انہیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے سفارت کار نہیں چاہئیں جن کی شکایات موصول ہوں اور کمیونٹی ان سے ناخوش ہو۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی ہم منصب کیساتھ ملاقات طے نہیں ہے۔