ضیاء شاہد ایک بے چین اور آئیڈیاز سے بھرپور شخص تھے۔ خبر کے مختلف زاوئیے گویا ہاتھ باندھے ان کے سامنے ایستادہ رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ ان کے نام خطوط میں براہ راست اپنی شکایات اور مسائل لکھا کرتے جو سرخ قلم سے کسی اسائمنٹ کی شکل اختیار کرتا۔ ’’چیف صاحب‘‘ کی اسائیمنٹ بھی ایک اور طرح کی مشکل ہوا کرتی‘ جو کئی مرتبہ نہ نگلے بنتی اور نہ اگلے۔ ایک ایسی ہی اسائمنٹ چیف رپورٹر میاں غفار یا میجر صاحب کے ذریعے مجھے ملی۔ میں نے دو دن چھان بین کی لیکن خط میں لکھے واقعات کی تصدیق نہ ہوسکی۔ میں نے واپس آکر دفتر بتایا کہ اس میں کوئی خبر نہیں ہے‘ میرے سینئرز کا خیال تھا کہ مجھے دو‘ چار سلپوں کی خبر فائل کرنی چاہیے لیکن میں نے ان کی رائے اور چیف صاحب کے غصے کو پس پشت ڈال کر چار سطریں لکھیں کہ کس طرح سے دو‘ تین دن ریکی اور تفتیش کے بعد کچھ بھی ثابت نہیں ہوا اور یہ کہ اس پر کوئی خبر فائل نہیں کی جاسکتی۔ میری تحریری تفتیش پر سب دم سادھے بیٹھے تھے کہ اب خدا جانے اس کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن صدشکر کہ میری تفتیش تسلیم کرلی گئی اور پھر اس کے بعد ایک راستہ کھل گیا کہ خطوط کی شکایت پر اگر خبر نہیں بنتی تو نہیں بنتی۔ مجھے اس کے بعد بھی دو‘ تین مواقع پر تحریری رپورٹ دینا پڑی کہ خبر نہیں بنتی لیکن انہوں نے کبھی مجھ سے پوچھا نہیں۔
’’معاف کیجئے گا‘‘ ایک زمانے میں ان کا تکیہ کلام تھا وہ بڑی عزت سے کہتے معاف کیجئے گا فلاں صاحب …… اور پھر شروع ہو جاتے۔ اکثر ان کی تان اس فقرے پر ٹوٹتی کہ آپ ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن پھر ان تمام صاحبان کو وہ ساتھ لے کر چلتے بھی رہے۔
ایک زمانے میں دوپہر کے اخبار کی سرکولیشن صبح کے اخبار سے بہت بڑھ گئی تو انہوں نے دوپہر کی اخبارکی سرکولیشن کم کرنے کے بھی طریقے بتائے کسی اور نے ایسا ایڈیٹر دیکھا ہے؟
سرکولیشن بڑھانے کے جتن تو سب کو آتے ہیں کم کرنے پر کسی اور کے علم سے میں ناواقف ہوں۔
انہوں نے ایڈمن سٹاف‘ ریسپیشن اوراپنے ذاتی سٹاف کے لوگوں کوبھی رپورٹر بنایا‘ ایک‘ دو فوٹو گرافر بھی رپورٹر بنے۔ اخبار میں عام آدمی کی زبان کے استعمال پر زور دیتے مجھے یاد نہیں کہ کس چیف نیوز ایڈیٹر نے لیڈ کی سرخی میں ایک مشکل الفاظ استعمال کیا لیکن یہ یاد ہے کہ دفتر کے سب افراد سے وہ لیڈ پڑھائی گئی اور مطلب پوچھا گیا۔ ثابت یہ کرنا مقصود تھا کہ جو لفظ اخبار میں کام کرنے والے عام آدمی کی فہم سے باہر ہے تو اس کو کوئی چائے والا‘ حجام یا تانگے والا کیسے پڑھے گا؟
ایک دفعہ دوپہر میں میٹنگ ہورہی تھی‘ اخبار پریس میں چھپ رہا تھا کہ یکایک کہنے لگے ’’شہزاد صاحب آپ شہر میں میرے ادارے اور اخبار کے نام کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں لوگ آپ کو طرح طرح کی باتیں بھی کرتے ہوں گے کہ بلیک میلر ہے‘ یہ ہے ‘ وہ ہے لیکن ایک بات یاد رکھئیے گا کہ میں ریلوے اسٹیشن کی روشنی میں پڑھ اور لاہور شہر کی دیواروں پر لکھتے لکھاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے اپنے کلب میں داخل کرنے پر ان کے تحفظات ہیں‘ آپ سب باتیں سن کر ان سنی کر دیا کریں اور صرف محنت کریں انشاء اللہ آپ کی محنت بھی ضائع نہیں جائے گی‘‘
سچی بات ہے محنت کے علاوہ پاس چارہ بھی کوئی نہیں تھا لیکن ان کی بات پلے باندھ لی۔
آج مجھ سمیت بہت سے لوگ جو بڑے بڑے اداروں میں اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ‘ وہ انہی کے چاک پر ڈھل کر نکلے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہر کسی نے اپنی استعداد اور استطاعت کے مطابق ہی ان سے حاصل کیا ہے۔
لاہور رہتے ہوئے کبھی بے روزگاری مسئلہ نہیں بنی کہ پتہ تھا جب بھی ضرورت ہوگی خوش خط درخواست پر نوکری ملے جائے گی‘ آخری بار غالباً 99/2000 ء میں مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہاں آجائیے مگر ٹکنا تو آپ نے ہے نہیں جونہی موقع ملے گا آپ پھر بھاگ جائیں گے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی پر بننے والی فلم میں کرسٹو فرلی کو کردار ملنے پر بہت رنجیدہ تھے اور چاہتے تھے کہ وہ خود اس پر فلم بنائیں۔ سنتوش کمار اور درپن کے سب سے چھوٹے بھائی ایس سلیمان کو بلوایا‘ (خیر دو دن پہلے وہ بھی گزر گئے) لیکن وہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی۔
ضیاء صاحب نے اپنے اخبار سے صحافت میں کئی نئے اسلوب متعارف کرائے ان پر’’ زرد صحافت‘‘ کا الزام بھی لگا لیکن ایک کامیابی جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے ’’پاکستان‘‘ اخبار نکالا اور کامیاب کیا پھر اپنے دو‘ تین اخبار نکالے اور کامیاب کیے۔ زرعی صفحہ اور پی ٹی وی پر زراعت کا پروگرام وہ بہت آگے دیکھتے تھے افسوس یہ ہے کہ جو لوگ انہوں نے بنائے‘ سنوارے انہیں سنبھالا نہیں لیکن یہ قصہ اب یہاں تمام ہوتا ہے اب ذمہ داری امتنان کے کندھوں پر ہے اور سچی بات ہے بہت بھاری ذمہ داری ہے جو اٹھانی ہے اور بہت بڑی جگہ ہے جسے پُر کرنا مقصود ہے!