جہان حیرت ،مشاہیر کی نظرمیں

 جہان حیرت سابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سردار محمد چودھری کا ایک سیاسی  شہہ پارہ ہے جو قدرت اللہ شہباب کے شہاب  نامے کے ساتھ تن کر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
جہان حیرت کا نیا ایڈیشن مشاہیر کی آرا سے مزین ہے اور سردار محمد چودھری کے معاصرین نے انہیں بھر پور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میرے مرشد جناب مجید نظامی کا کہنا ہے کہ قاری جہان حیرت کو پڑھتا  ہے تو وہ اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔چودھری صاحب نے سچائی کے ساتھ واقعات کو تحریر کیا ہے۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا۔ اس کا جواب بھی جہان حیرت میں موجود ہے کہ پاکستان بننے سے قبل مسلمانوں پر ہندو وں کا کس طرح غلبہ تھا، لاہور شہر میں چند دکانیں مسلمانوں کی تھیں آج یہاں پلازے آسمانوں کو چھو رہے ہیں ڈیفنس ہے کہ پھیلتا چلا جا رہا ہے، موٹر ویز ہیں ۔ میٹرو ز ہیں اور اورنج لائن تک کے معجزے دیکھنے کو مل رہے ہیں، لبرٹی،طارق روڈ،جناح سپر کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں، سیالکوٹ کے سرجیکل  اور اسپورٹس کے سامان کی عالمی مانگ کو ہم پورا کرنے سے قاصر ہیں، اور فیصل آباد نے مانچسٹر کی جگہ لے  لی ہے اور یہاں کی ٹیکسٹائل صنعت  دنیا  کا مقابلہ کرتی ہے ۔ اس ملک کے چار موسم ،اس کے ساحل اور اب اس  کا سی پیک کا روٹ دنیامیں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔مگر جہان حیرت کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہماری قوم کی اجتماعی اور انفرادی خامیوں کو بھی عیاں کر دیا ہے،سیاسی آویزش،مسلکی منافرت اور دہشتگردی کے پس پردہ کونسے عوامل کارفرما ہیں ، جہان حیرت نے سارا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ جہاں حیرت کے آئینے میں ہمیں اپنا اصل روپ نظرآ جاتا ہے، یہ روپ اچھا ہے یابرا، یہ ہمار ارنگ و روپ ہے۔ سردار محمد چودھری ایک نظریاتی انسان ہیں اور ان کی اسلام ،پاکستان، قائد اعظم اور اقبال کے ساتھ کمٹمنٹ شک وشبہ سے بالا تر ہے،میں کہوں  گا کہ جس نے یہ کتاب نہیںپڑھی، وہ اپنے آپ کو پہچان نہیں سکتا، جہان حیرت ہماری پہچان ہے ہمارا افتخار ہے۔جہان حیرت ہمارے ماضی کا  قصہ ہے اور مستقبل کا روشن چہرہ  ۔خدا سردار محمد چودھری کو اس قدر سچی اور کھری اور دلچسپ کتاب لکھنے کا اجر دے۔
ممتاز صحافی۔ کالم نویس ، ایڈیٹر اور اب ٹی وی  اینکر مجیب الرحمن شامی یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ چودھری سردار محمد ایک مصنف اور وہ بھی لازوال اور بے مثال ۔اپنی سرکاری ملازمت سے رخصتی کے بعد سامنے آئے اور انہوںنے اپنی تحریر سے وہ رنگ جمایا کہ باقی سب رنگ ان کے سامنے پھیکے پڑ گئے چودھری صاحب کی یہ داستان ایک الف لیلی کی طرح دلچسپ اور افسانے کی طرح ناقابل یقین ہے مگر سراپا ایک حقیقت جس میں کوئی ملمع کاری نہیںکی گئی۔ یہ خود نوشت بھی ہے اور جگ بیتی بھی ہے۔ ایک آئینہ بھی ہے جو ہمیںتحریک پاکستان،قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کی روشن داستان سے رو شناس کراتا ہے،قارئین پر یہ کتاب ایک مسحور کن تاثر چھوڑتی ہے۔کتاب ایک بار کھول لیجئے پھر آپ اسے ختم کئے بغیر بند نہیں کر سکتے۔چودھری صاحب نے یہ راز کھولا ہے کہ پاکستان اہل پاکستان سے چھین لیا گیا ہے اور قائد اعظم اور علامہ قبال کے نظریات اور قرارداد مقاصد کی رو سے عوام کو حاکمیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ہم اس کی روشنی میں ماضی سے سبق سیکھ سکتے ہی اور نئی ،روشن منزلوں کی جانب گامزن رہ سکتے ہیں۔
حاجی محمد اکرم نے سرکاری ملازمت ایک ساتھ گزاری۔قدم قدم پر آزمائشوں سے بھی دو چار ہوئے۔ مگر ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہاتھ نہیں چھوڑا۔
حاجی محمد اکرم نے  اپنی یادوں میں جھانکتے ہوئے کہا ہے کہ میر ااورچودھری سردار صاحب کا تعلق ستر کے عشرے سے قائم ہوا جب میں راولپنڈی کا ڈی سی تھا اور وہ ایس پی اسپیشل برانچ کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ یہ انتہائی پر آشوب دور تھا۔پاکستان دو لخت ہوا۔ حمودالرحمن کمیشن کی انکوائری شروع ہوئی، چوہدری سردار ان واقعات کے پس پردہ متحرک اور سرگرم تھے اور ہر راز ان کے ذہن میں نقش ہوتا رہا۔ترقی کے درجات طے کرتے ہوئے وہ ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ بنے اور اس حیثیت سے وہ میاںنواز شریف کے بے حد قریب ہو گئے۔ یہ کمٹمنٹ ان کے آخری سانس تک قائم رہی۔ میری تجویز ہے کہ یہ کتاب ہرتعلیمی ادارے کی لائبریری اور ہر گھر میںہونی چاہئے۔
صائمہ نوید کریم چودھری کا اعزاز ہے کہ وہ سردار محمد چودھری جیسی عظیم ہستی کی بیٹی ہیں۔اپنے باپ کو انہوںنے قریب سے دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ میرے ابوخاندان کے لئے بے مثال اور صاحب کمال شخصیت تھے، شفقت اور انسانیت اور محبت کا میٹھا سرچشمہ جس سے خاندان بھی سیراب ہواا ور ان کے ادارے کے ساتھی بھی ان سے فیض یاب ہوتے رہے، ان میں پولیس والوں کی کوئی خو بو نہیں تھی۔ خود بھی سادگی کا پیکر اور ہمیں بھی عجز و انکساری اپنانے پر زور دیتے۔ وہ باپ تھے مگر اولاد کے لئے دوست اور ساتھیوں کے لئے مہربان سایہ۔ ان کی کتاب جہان حیرت ہمارے لئے بھی حیرت کا باعث ثابت ہوئی کہ ابو جی نے کبھی باہر کی بات گھر آ کر بیان نہیں کی،یہ سارے سربستہ راز تھے جو جہان حیرت کا حصہ بنے ۔ اور قومی تاریخ کے اہم رازوں کو اس کتاب نے بے نقاب کیا ہے۔مجھے اپنے ابو پر اور ان کی اس کتاب  پر فخر ہے۔
 ڈاکٹر رفیق احمد کہتے ہیںمیرا معاشیات جیسے خشک اور کھردرے  شعبے سے تعلق ہے مگر یقین جانئے کہ سردار محمد چودھری کی خود نوشت جہان حیرت کی الف لیلی کی حیرتوں میں ڈوب کر رہ گیاہوں،  یہ کتاب تاریخ تو ہے مگر میں اسے مشاہداتی تاریخ کہوں گا،سردار چودھری ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ رہے،نارکوٹکس کنٹرول بورڈ میں رہے اور پھر آئی جی پولیس بنے، اس لحاظ سے ان کی آنکھ نے وہ کچھ دیکھا جو عام آدمی یا مورخ کو بھی نظر نہیں آتا،اسی لئے جہان حیرت کا عجائب خانہ قاری کی کشش کا باعث بنتا ہے۔
میں نے  جہان حیرت کے مطالعے سے ا خذ کیا ہے  کہ مصنف کو اسلام ، علامہ اقبال ، قائد اعظم اور جمہوریت سے بے پناہ عشق ہے اور وہ اس عشق پر کوئی کمپرو مائز کرنے کو تیار نہیں ہوتا،سردار چودھری کا اسلام وہی ہے جو ریاست مدینہ میں عملی طور پر نافذہوا۔وہ مسلکوں کی تفریق کے قائل نہیں ہیں، خالص اور کھرے اورسچے اسلام کے شیدائی ا ور فدائی ہیں، قائد اعظم کے بغیر وہ پاکستان کے نظریئے کو مکمل نہیں سمجھتے اور جمہوریت پرتو آنکھیں بند کر کے ان کا ایمان ہے۔
جہان حیرت میں وہ تاریخ ہے جس کا مشاہدہ مصنف نے خود کیا کہ سترسے لے کرنوے کے عشرے تک جو سیاسی بھونچال آیا،اس کی تباہی کی ایک ایک تفصیل ان کے نوک قلم سے کتاب کے صفحات پر منتقل ہو گئی ہے۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی چپقلش کا ایک کردار خود چودھری صاحب بھی تھے مگر انہوںنے اس دور کا معروضی جائزہ پیش کیا ہے اور کہیںذاتی تعصب کا سایہ تک نہیںپڑنے  دیا۔جہان حیرت قومی رازوں کا خزانہ ہے مگر اس کتاب نے ان رازوں کا بھید کھول دیا ہے۔
جہان حیرت کانیا ایڈیشن ساڑھے پانچ سو بڑے سائز کے صفحات پر محیط ہے،اسے الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہورنے قارئین کے اعلیٰ ترین ذوق کے مطابق انتہائی دیدہ زیب بنانے کی کوشش کی ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن