اسلام آباد (رپورٹ؛ عبدالستار چودھری) وزیراعظم میاں شہباز شریف کی وفاقی کابینہ آج حلف اٹھائے گی۔ صدر مملکت عارف کی جانب سے وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے معذرت کے بعد چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی آج وفاقی کابینہ کے ارکان سے حلف لیں گے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کی تشکیل کے لئے گزشتہ 9 روز میں وزیراعظم شہباز شریف کے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مشاورت کے متعدد ادوار ہوئے، بعض اتحادی جماعتوں کی جانب سے من پسند وزارتیں نہ ملنے اور مطالبات پورے نہ ہونے کے باعث مشاورتی عمل تعطل کا شکار ہوتا رہا اور وفاقی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہوئی۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے اعلان کیا ہے کہ نئی وفاقی کابینہ 36رکنی ہوگی جس میں مسلم لیگ (ن) کے14 ، پیپلز پارٹی کے 11، جب کہ جے یو آئی کے 4 وزراء حلف اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ 7 وزارتیں دیگر اتحادی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں وزیرخارجہ ہوں گے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے ارکان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزارت توانائی اور پٹرولیم کے معاملات دیکھیں گے۔ احسن اقبال پلاننگ کمیشن کے وفاقی وزیر ہوں گے۔ سردار ایاز صادق کو اقتصادی امور ڈویژن کی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ کو وزارت قانون کا قلمدان دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مفتاح اسماعیل کو خزانہ کا قلمدان دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ رانا ثناء اللہ کو وزارت داخلہ دی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق مریم اورنگ زیب کو وزارت اطلاعات جب کہ خواجہ آصف کو وزارت دفاع، رانا تنویر کو وزارت پارلیمانی امور اور خواجہ سعد رفیق کو وزارت ریلوے کا قلمدان سونپا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی نے ایک وفاقی وزارت کے علاوہ گورنر خیبرپختونخواہ کا عہدہ بھی مانگا ہے جس سے انکار کے بعد اسفند یار ولی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کو جو وزارتیں اور عہدے دئیے جا رہے ہیں ان میں وزارت ہائوسنگ، وزارت مذہبی امور، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ شامل ہے تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صدر مملکت کا عہدہ مانگ رہے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ کی تشکیل التواء کا شکار ہو رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ بھی اسی تناظر میں کیا ہے تاکہ حکومت پر من پسند عہدوں کے لئے دبائو بڑھایا جا سکے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے امین الحق اور خالد مقبول صدیقی کابینہ کا حصہ ہوں گے جب کہ آزاد ارکان میں محسن داوڑ کو بھی کابینہ میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے بھی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برادری کل گیارہ بجے تک متوقع ہے اور حلف برداری کی تقریب کے بعد بھی کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم پر مشاورت جاری رہے گی اور تمام اتحادیوں کی رضامندی کے بعد ہی کابینہ ڈویژن کی جانب سے کابینہ کے ارکان کو مختلف وزارتوں کے قلمدان سونپے جانے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ رات ساڑھے 8بجے حلف اٹھانا تھا تاہم وزیراعظم آفس کی جانب سے حلف برداری تقریب کے لئے صدر سے رجوع کیا گیا لیکن صدر مملکت نے حلف لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایوان صدر کے ترجمان کے مطابق صدر مملکت چھٹیوں پر ہیں اس لئے وہ وزراء سے حلف نہیں لے رہے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) مسلم لیگ ن کی اہم رہنما کی جانب سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نام وزیر خارجہ کے طور پر لیا گیا ہے۔ تاہم پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور حتیٰ کہ کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے رات گئے تک مہر بہ لب تھی، ان کے اندرونی ذرائع دعویٰ کر رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کم از کم پیر اور منگل کی درمیانی شب تک کابینہ میں شامل ہونے اور وزیر خارجہ بننے پر کوئی آمادگی ظاہر نہیں کی تھی، یہ ایک تجویز ہی ہے، جو دوسرے امور سے منسلک ہے، جب ان پر اتفاق ہو گا تو اس پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔ پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے گذشتہ روز سب سے پہلے 36وزراء پر مشتمل کابینہ بننے کی اطلاع دی تھی جس کے بعد صدر مملکت کی طرف سے حلف لینے سے معذرت کی خبریں سامنے آئیں۔ مسلم لیگ ن نے کچھ ناموں کا علان بھی کیا تاہم کابینہ حلف نہیں اٹھا سکی۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کا نام سامنے آیا تھا۔ گذشتہ رات پی پی پی نے اس بارے میں کہا کہ چیئرمین ابھی آمادہ نہیں ہوئے ہیں، تاہم لمحہ بہ لمحہ صورت حال بدل بھی رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ چند ہفتے قبل پی پی پی سے مذاکرات کے نتیجہ میںجو پارٹیاں اپوزیشن کے ساتھ رہیں۔ ان میں اختر مینگل اور اسفند یار ولی ناراض ہیں اور ان کے بیانات بھی سامنے آ چکے ہیں جن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کابینہ کی تشکیل مشکلات کا شکار ہے اور جو کچھ طے ہوا تھا اس سے گریز کیا جا رہا ہے\ ان کا کہنا تھا کہ اگر معاملہ طے ہو جاتا ہے اور پی پی پی کابینہ میں آتی ہے تواس کی طرف سے سید خورشید شاہ ، شازیہ مری، شیری رحمن، حنا ربانی کھر، سید نوید قمر، مصطفی نواز کھوکھر، قادر پٹیل، ساجد طوری، قمر زمان قائرہ کابینہ میں شامل ہوں گے۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی تک کابینہ کی تشکیل اور اس کی ہیئت حتمی نہیں ہے تاہم رابطے جاری ہیں جن پر اتفاق ہوتے ہی حلف ہو جائے گا جو آج بھی ممکن ہے۔