اتارچڑھائو سے گھبرانا نہیں!

آپ دنیا جہاں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نظر آئے گا قوموں پر عروج و زوال آتے رہتے ہیں مگر جو قومیں استقامت کا مظاہرہ کرتی ہیں وہی بالآخر ترقی و خوشحالی کے آسمانوں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ کبھی زوال و عروج ، کبھی ترقی و تنزلی تو کبھی سخت امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات قوموں کی تاریخ ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتی ہے اور اس وقت کے فیصلے مستقبل کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ آج پاکستان کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ عالمی سازشوں اور دھمکیوں نے من حیث القوم ہمارا امتحان لیا ہے کہ آیا ہم قومی حمیت اور غیرت پر ڈٹ جاتے ہیں یا ماضی کی طرح اپنے مفادات کو عالمی طاقتوں کی بھیٹ چڑھاتے ہیں۔ 27 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد جلسے میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا اور دعویٰ کیا کہ یہ خط ایک ملک سے آیا ہے جس میں وزیراعظم کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنے کی دھمکی دی گئی اور وزیراعظم کے دورہ روس پر بھی سخت تحفضات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس انکشاف کے بعد 30 مارچ کو وفاقی کابینہ اور سینئر صحافیوں کو خط کے مندرجات سے آگاہ کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس اور امریکی سفارتی عہدیدار کی دفتر خارجہ طلبی کے باوجود حزب اختلاف خط کو حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان پر بیرونی دبائو ڈالا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو بھی کہتے تھے کہ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ ہنری کسینجر نے کیمیائی ری پروسیسنگ پلانٹ کی فرانس کے ساتھ ڈیل کو ختم کرنے کے لئے انھیں اور ملک کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی۔ نواز شریف بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لئے امریکہ سخت دبائو ڈالا اور معاشی پابندیاں بھی عائد کیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام دھمکیوں کے باوجود ہم کوئی واضع ردعمل نہ دے سکے۔ اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی کو روز اول سے ہی آزاد رکھتے تو آج امریکہ کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ ایک آزاد اور ایٹمی ملک کو براہ راست دھمکیاں دے۔ اس تمام صورتحال میں حزب اختلاف کی غیر سنجیدگی افسوسناک ہے۔ نون لیگی رہنما خواجہ آصف کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے لئے معاشی مسائل پیدا کرسکتا ہے
اور ہماری معیشت امریکی وینٹیلیٹر پر چل رہی ہے۔ اگر امریکہ چاہیے تو پاکستان اپنا تیل کا بل بھی ادا کرنے کا قابل نہ رہیں۔ شاید اس سے زیادہ بزدلانہ اور احمقانہ بیان کوئی ہوسکتا ہو۔ قومی راہنماوں کا کام تو عوام کو حوصلہ دینا اور انھیں خودار بنانا ہوتا ہے مگر ہمارے راہنما بزدلی کا پاٹ پڑھا کر امریکی غلامی میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ کچھ صحافی حضرات تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر ایسا ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکہ کو ناراض کرکے پاکستان ختم ہوگا یا خدانخواستہ وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ کوئی ان احمقوں کو یہ تو سمجھائے کہ قومی وقار پر معاشی مشکلات اور اندرونی مسائل کی وجہ سے سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ اگر امریکہ معاشی طور پر طاقتور ہے تو کیا اس سے بلیک میل ہوا جائے یا اسکی دھمکیوں سے دب جائیں کیا ہماری معیشت افغانستان اور ایران سے بھی کمزور ہے جنہوں نے قومی مفاد کو امریکہ پر ترجیح دی اور امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آج امریکہ کو دورہ روس پر تحفظات ہیں تو کل چین سے تعلقات پر بھی نالاں ہوگا۔ ہم کب تک دوسروں سے دبتے رہینگے ؟ زندہ قومیں کبھی بھی اپنی سالمیت اور قومی غیرت پر سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں۔ ممالک کے مابین تعلقات کو برابری کی بنیاد پر رکھنا چاہیے نہ کہ غلامی اور ’’یس سر‘‘ کی پالیسی کی بنیاد پر۔ اگر امریکہ بڑی معیشت ہے تو اسکی ہر جائز و جائز بات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ملکی مفاد میں ہونی چاہیے۔ ہمیں ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہیے کہ جس میں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی گنجائش موجود نہ ہو۔ اس حکومت نے کم از کم عالمی برادری میں پاکستان کو ایک انفرادی مقام تو دلایا ہے۔ عوام کو ذہنی غلامی سے آزاد اور پاکستان کو بطور ایک اہم اسٹرٹیجک ملک کے اسکی عالمی ساخت کو بہتر کرنے کا سہرا بھی عمران حکومت کے سر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ خائف ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڑرز پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور امریکی دھمکیوں پر یکجاں ہوکر واضع حکمت عملی اپنائیں کیونکہ یہ صرف حکومت نہیں بلکہ ریاست کی خودمختاری اور خوداری کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس بات کا تعین بھی کرنا ہے کہ آیا ہمیں کرپٹ ، بزدل اور قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنے والے راہنماوں کی ضرورت ہے یا نڈر اور شفاف قیادت چاہیے جو پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھے اور قوم کو عالمی برادری میں باعزت مقام دلائے۔کیونکہ ہمارا آج کا درست فیصلہ کل کے مضبوط، خوشحال اور مستحکم پاکستان کا ضامن ہے۔

ای پیپر دی نیشن