گفتگو میں احتیاط کیجئے

22 اور 23 مارچ 1940ء کو لاہور منٹو پارک میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجتماع میں ’’قرارداد لاہور‘‘ منظور ہوئی. یہ وہی قرارداد تھی جسے ہندوپریس نے قائداعظم محمد علی جناح کی مخالفت اور آل انڈیا مسلم لیگ کی دشمنی میں ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے منٹو پارک میں عہد کیا تھا کہ وہ اپنے قائدعظیم ؒکی قیادت وراہنمائی میں حصول پاکستان کے خواب کی تعبیر ضرور پائیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ  محض سات سال کی عدیم المثال جدوجہد کے نتیجے میں رب کائنات نے علیحدہ وطن کا تحفہ دے دیا ۔اس منٹو پارک میں بانی  پاکستان محمد علی جناحؒ کے تاریخی خطاب پر غیر ملکی اخبار نویس نے ایک محنت کش سے پوچھا ’’ تمہیں انگریزی کی سمجھ آتی ہے؟ جواب ملا نہیں! پھر آپ کو کیا معلوم مسلم لیگ کا صدر کیا خطاب کررہا ہے ؟محنت کش نے جواب کے برطانوی اخبار نویس کو لا جواب کر دیا،  بوڑھا مزدور کہنے لگا ’’ قائداعظم جوکچھ کہہ رہے ہیں سچ بول رہے ہیں یقینا وہ مسلمانوں کے فائدے کی بات کررہے ہیں‘‘یہ ہیں وہ جذبے اور یہ ہے مخلص لیڈر شپ …ہمیں یہ انمول‘ یادگار اور ناقابل فراموش واقعہ آج  حالات کی بیچارگی اور اجتماعات میں راہنماؤں کے انداز خطابت پر یاد آرہا ہے۔ 3 اپریل 2022ء (یکم رمضان) کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی طرف سے عدم اعتماد کی رولنگ مسترد کئے جانے سے  پی ٹی آئی کے اقتدار کی رخصتی کے بعد 13 اپریل کو پشاور میں پہلے جلسہ عام تک ایسی باتیں اور ایسے شگوفے منظر عام پر لائے جاتے رہے کہ پاکستان سے جڑے ملکی وغیر ملکی حالات و واقعات پر فوجی ترجمان کو وضاحت کے لیے آنا پڑا۔
14 اپریل (12 رمضان المبارک) کو ہونے والی پریس بریفنگ میں ترجمان آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار بابر ان تمام واقعات سے افواہوں اور ابہام کی گرد جھاڑ دی جن پر شکوک وشہبات کی ملع کاری کی جاتی رہی۔ مثلا پشاور کے جلسہ عام میں خان صاحب نے ایٹمی پروگرام کی بابت اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کے جوہری پروگرام کی یہ چور، یہ ڈاکو کیا حفاظت کریں گے؟ فوجی ترجمان نے واضع کر دیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی سطح کے مروجہ اصولوں کے تحت محفوظ ہاتوں میں ہے۔ سیاسی راہنماؤں کو قومی مفاد کے اس بڑے ایشو پر پبلک میٹنگ میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ 8 اپریل کو ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم کی حیثیت سے جناب عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں فوج کی طرف سے استعفٰی‘ عدم اعتماد کا سامنا اور  پھر عام الیکشن کے آپشن دئیے گئے انہوں نے تیسرے آپشن کو پسند کیا۔ اس بات کو میجر جنرل افتخار بابر نے رد کر دیا ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاوس کی طرف سے فوجی قیادت کو ان تین آپشن پر بات کرکے ڈیڈ لاک ختم کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔ آئی ایس پی آر کی ایسی ہی وضاحت امریکہ کو دئیے جانے والے ممکنہ ہوائی اڈوں سے متعلق بھی تھی ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے اداروں کی بات کسی سطح بھی زیر بحث نہیں آئی گئی اب ہم لیٹر گیٹ پر کیا بات کریں!!
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذمہ دار شخصیتات کو گفتگو میں احتیاط کرنا چاہیے اور جب جلسہ عام ہورہا تو پھر حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے پاکستان کا جوہری پروگرام‘ پاک امریکہ تعلقات اور اداروں کے کردار کو پبلک میٹنگ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ہے بعض اوقات جذباتی رو میں ایسے لفظ ادا ہو جاتے ہیں کہ ان کی وضاحتیں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ 
قومی کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین جناب شہریار آفریدی اور ہوا بازی امور کے سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان بھی اپنے اپنے جلسوں میں اپوزیشن پر ’’خودکش بمباری‘‘ کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ خطاب کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں وضاحتیں کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اگر ہم گفتگو سے احتیاط کے پھول شامل رکھیں تو ہم شرمندگی اور سسبکی کے کانٹوں سے خود کو دور اور محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر ہم تو مخالفت کو دشمنی میں بدلنے کا چلن عام کررہے ہیں یہ اسی ریت کا ثبوت ہے کہ ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف دست وگریبان ہے اب تو بات اس سے آگے بڑھ گئی ہے پوٹھوار پر ایک دیہی علاقے میں چار روز قبل سیاسی بحث کے دوران نوجوان کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ لوئر دیر میں 2 شہری سیاسی تبصرے اور جھگڑے کی نذر ہوگئے خدارا احساس کریں مخالفت کا جواب مفاہمت سے دیں، پاکستان کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہم سب کا وطن ہے۔

ای پیپر دی نیشن