لاہور (خبرنگار+ وقائع نگار) لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے زمان پارک ممکنہ آپریشن روکنے، مقدمات اور انکوائریوں میں طلبی کے نوٹسز کے خلاف عمران خان کی مقدمات کے اخراج اور حکم امتناعی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے زمان پارک ممکنہ آپریشن، پنجاب کے 80مقدمات کے خلاف درخواست پر فیصلہ سنایا۔ فاضل عدالت نے عمران خان کو غیر قانونی ہراساں کرنے سے روک دیا جبکہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ لاءآفیسر کے بیان کے مطابق قانون کے مطابق کارروائی کو نہیں روکا جاسکتا۔ پنجاب حکومت کے وکیل کے بیان کی روشنی میں کیس کی سماعت تک سائل کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا جبکہ عدالت نے عمران کی درخواست پر جلد سماعت کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ مرکزی درخواست دو مئی کو سماعت کے لیے مقرر ہے اس لیے جلد سماعت کی ضرورت نہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے سماعت کی۔ عمران خان، شبلی فراز ان کے وکلاءکی ٹیم کمرہ عدالت میں موجود رہی۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ 80 کیسز عمران کے خلاف پنجاب درج کئے یہ تمام کیسز پولیس کی مدعیت میں درج کئے گئے ہیں جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے بتایا کہ دو مئی کو ایک اور درخواست سماعت کیلئے مقرر ہے۔ ہم نے آپ کی درخواست کو تسلی سے پڑھا ہے۔ سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ آج تک جتنے کیسز درج ہوئے ان سب میں ضمانت لی۔ آج صرف ایک عدالت سے درخواست ہے، عید الفطر کے پانچ دنوں میں آپریشن کی اطلاعات ہیں، انتظامیہ اپنے اختیارات کا مسلسل غلط استعمال کررہی ہے، عدالت نے اسستفسار کیا کہ اتنی کیا جلدی ہے کہ متفرق درخواست دائر کرنا پڑی۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ تین ماہ کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے کوئی مقدمہ نہیں ہوتا اور اچانک سامنے لاکر آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے۔ آج کے دن تک کوئی اور ایف آئی آر منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب غلام سرور نہنگ نے عدالت کو بتایا کہ یہ چاہتے ہیں کہ پولیس یا تفتیش سے قبل عدالت سے اجازت لی جائے۔ اس درخواست کے دائر کرنے کی لاجک سمجھ نہیں آئی۔ آپریشن کی اطلاعات کے بارے میں کہا گیا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے عدالت کو۔ جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ بیان دیتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں ہوگا، یہاں پر آپ غلط کہتے ہیں ضمانت کے باوجود گرفتار نہیں کیا جاتا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی دس کیسز کیلئے بنائی گئی ہے۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی والوں نے عید پر چھٹی کیلئے نہیں جانا۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہاں پر کلچر کراچی والا بنایا گیا ہے جو لاءانفورسمنٹ ادارے ہیں وہ ہر ایک کے لیے ایک جیسے ہیں۔ وہ نتھو اور پھتو کے لیے ایک جیسے ہیں۔ کیا کوئی قانون سے بالا تر ہو سکتا ہے۔ یہ تو ابہام پر باتیں کر رہے ہیں کہ انہیں ممکنہ طور پر گرفتار کر لیا جائے گا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ عید کا موقع ہے آپ ان کو عید کرنے دیں گے ناں! آپ ان کے گھر تو نہیں چلے جائیں گے۔ جسٹس عالیہ نیلم نے پوچھا کہ کیا جو کیسز ان پر ہیں کیا ان پر عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کے خلاف کیسز یا جے آئی ٹی روک دیں۔ قانون کہتا ہے کہ ملزم شامل تفتیش ہوئے اور بھاگتا بھی نہیں، اس پر کیا کہتے ہیں۔ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جی یہ قانون تو ہے لیکن اس کیس میں حالات مختلف ہیں۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ یہ بتائے کہ جی آئی ٹی ان کیسز پر بنی ہوئی ہے۔ جس پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی بڑے اہم کیسز پر بنی ہوئی ہے، یہ عید ہے، انہوں نے وہاں ایریا کو کورڈ آف کر لیا ہوا ہے۔ انہوں نے الطاف حسین کی طرح سڑک کو نو گو ایریا بنا دیا ہوا ہے۔ عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ حالانکہ اسلامی رواداری بھی یہی ہے کہ عید کے اس مبارک موقع پر کوئی بدامنی نہ پھیلائے۔ جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملزم کے بھاگنے کے بھی چانسز نہ ہوں تو اس موقع پر قانون کے مطابق انویسٹی گیشن بھی روکی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ قوم مجھے پچاس سالوں سے جانتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم انتشار پھیلا رہے ہیں، ہمارا تو فوکس ہے کہ انتخابات ہوں۔ اسی لئے انتشار ہم نہیں چاہتے، انتشار تو یہ پھیلا رہے ہیں، پیسے نہ دے کر اور سکیورٹی فراہم نہ کرکے۔ اسلام آباد جاتے ہی میرے گھر پر چھبیس گھنٹے حملہ کیا گیا۔ اگر ہم آپ کے پاس نہ آئیں تو کدھر جائیں گے۔ میں نے تو گھر میں ہی رہنا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران کی ویڈیو لنک پر عدالتوں میں پیشی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ٹیکنالوجی کا جہاں استعمال ہو سکتا ہے ہونا چاہئے، یہ سارا معاملہ لیکن صرف عمران خان کی حد تک نہیں۔ اس درخواست پر فیصلے کے دیگر مقدمات پر بھی اثرات ہوں گے۔ کیس میں فرد جرم بھی عائد ہونا ہوتی ہے۔ کیا وہ بھی ویڈیو لنک پر ہو گی؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو لنک کی درخواست منظور ہونے کا فائدہ صرف عمران خان کو نہیں سب کو ہو گا۔ ادھر چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت 8مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔ سماعت کے دوران عمران خان کی جانب سے ایک روزہ حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی گئی۔ فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہاکہ عمران خان اس عدالت میں پیشی کیلئے تیار تھے، مگر آج لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہونا تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی نے جج دھمکی کیس میں طلبی کے باوجود عمران خان کی غیر حاضری پر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 20 ہزار روپے مالیتی ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواتیں دو بار خارج ہو چکی ہیں۔ دوران سماعت عمران خان کی وارنٹ کی عدم تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی گئی۔