حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔آپ مدینہ منورہ ہجرت کے وقت اپنا سب مال و اسباب مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن جونہی مدینہ منورہ پہنچے کام شروع کر دیا اور کسی کی امداد قبول نہیں کی اور کچھ ہی عرصہ میں مدینہ منورہ کے امیر ترین آدمی بن گئے۔آپ شام سے سات سو اونٹ ہر طرح کے مال سے بھرے ہوئے لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں نے عبد الرحمان بن عوف کو جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوتے ہوئے دیکھا “۔ جب یہ بات عبد الرحمان بن عوفؓ تک پہنچی تو کہنے لگے ”اگر ہو سکا تو میں جنت میں کھڑا ہو کر داخل ہو ں گا “ اور اس کے بعد ان سب اونٹوں کو اس کے ساز و سامان سمیت اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔یہ تھے وہ دولت مند مسکین جن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حشر میں اٹھنا پسند فرمایا اور اللہ سے دعا مانگا کرتے کہ اے اللہ حشر میں مجھے مسکینوں کے ہمرا ہ اٹھانا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے ”اے اللہ ،مجھے مسکین زندہ رکھنا ،مسکینی کی حالت میں موت عطا فرما اور مسکینوں کی جماعت کے ہمراہ حشر میں زندہ فرما“(سنن الترمذی)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مبارک پر تفکر کرنے سے پہلے لفظ ”مسکین“ کی اصطلاح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ ہو ،مسکین فقیر سے زیادہ بد حال ہو تا ہے کیوں کہ فقیر وہ انسان ہوتا ہے جس کے پاس زکٰوة کے نصاب جتنا مال نہ ہو ،مطلب یہ کہ اس کے پاس تھوڑا سا مال ہے جبکہ مسکین کے پاس یہ معمولی مقدار بھی نہیں ہے۔ اس لیئے مسکین وہ شخص ہے جو صدقات زکٰوة قبول کرتا ہے اور دوسروں کی مدد کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی معرفت پر غورو خوض کیا جائے تو روح کانپ اٹھتی ہے کہ آقائے دو جہاں مسکینوں کے ہمراہ حشر کے طلبگار ہیں۔دعا کی گہرائی کو سمجھنے کے لیئے یہاںلفظ مسکین کے روحانی پہلو کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس ”مسکین “کا سوال نہیں فرمایا جس کا مطلب لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہوتا ہے بلکہ اس سے مراد ملنساری،عاجزی اور فقر کا احساس ہے۔ بزرگان دین نے فقر کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان اس بات کا دراک کرے کہ وہ حقیقت میں کسی شے کا مالک نہیں ،اسے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے کا احساس ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہی جذبات کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے تھے اور انہی کیفیات کے ساتھ آخرت کا سفر طے کرنا چاہتے تھے۔ جو لوگ دنیا کی لذتوں کو دل سے طلاق دے دیتے ہیں ،وہ دولت مند ہوتے ہوئے بھی روحانی طور پر مسکین ہوتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی کہ آپ کا حشر ان لوگوں کے ہمراہ ہو جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہیں ، دنیاوی لذتوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور اخروی فقر و عاجزی کا پیراہن اوڑھے ہوئے ہیں۔دو جہانوں کے شہنشاہ نے فقیرانہ زندگی بسر کی اور جب دنیا سے رخصت ہوئے تو پیچھے کوئی مال نہیں چھوڑاجس پر آخرت میں محاسبہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عیش و عشرت کی جانب مائل نہیں ہوئے اور جتنی بھی مشکلات کا شکار ہوئے اپنے خالق کے سوا کسی کے آگے شکوہ نہیں کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلی ہوا سے زیادہ سخی تھے۔اس طرح عطا کرتے تھے کہ فقر کا کوئی ڈر نہیں ہوتا تھا۔ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور ایسی زندگی بسر فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فقیر کی زندگی سے بھی کم تر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکین لوگ تھے۔ مسلمان خود کو دنیا کی افضل جماعت تصور کرتے ہیں لیکن اعمال کے اعتبار سے دنیا میں ذلت سے دوچار ہیں۔ جن اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی سے ہے تو یہ اللہ اور بندے کا ذاتی معاملہ ہے لیکن جن اعمال کا تعلق دوسرے انسانوں سے ہے در حقیقت وہ اسلام کے لیے باعث شرمندگی ہیں۔ مال کا اکٹھا کرنا ایک ایسا موذی مرض ہے جس میں لمبی داڑھیوں والے بھی اتنے ہی ملوث ہیں جتنے کلین شیو حضرات۔داڑھی ،جبہ اور عمامہ اب دنیا کو متاثر نہیں کرتا بلکہ الا ما شا ءاللہ اعمال کی وجہ سے لوگ ان حضرات سے دور بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہوس مال انسان کو بے نقاب کر کے چھوڑتا ہے۔ دنیا بھر کو احادیث سناتے پھرتے ہیں لیکن مفت کا مال ہاتھ آیا ہڑپ کرنے میں ڈکار تک نہیں لیتے۔ یہی صورتحال مقتدر طبقات کی ہے۔حکومتی خزانے کو ”بے بے کا مال“ سمجھ کر کھاتے ہیں۔لنگر کی دیگ کی طرح چٹ کر جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا مسکین وہ نہیں جس کے پاس دمڑی نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامسکین وہ ہے جس کے پاس بھلے قارون کا خزانہ ہو مگر جمع کرنے کی حرص سے پاک ہو۔راہ خدا میں خرچ کر دے۔حلال اور محنت کی کمائی دولت رکھتے ہوئے بھی اس کا دل مسکین ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے ”اے اللہ ،مجھے مسکین زندہ رکھنا ،مسکینی کی حالت میں موت عطا فرما اور مسکینوں کی جماعت کے ہمراہ حشر میں زندہ فرما“۔کون بد بخت ہو گا جو روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی آرزو نہ رکھے مگر اس آرزو کا پیمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا کے توسط سے امت پر واضح فرما دیا۔ اب یہ امت کو فیصلہ کرنا ہے کہ روز حشرمال اور اولاد کے ساتھ اٹھائے جانے کی آرزومند ہے یا حبیب مصطفیٰ آقا نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی طلبگار ہے۔