ٹوکیو (این این آئی)دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں غیرسرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی کو ’فوری واپس لینے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔جاپان میں دو روزہ مذاکرات کے بعد جاری کردہ بیان میں جی سیون نے طالبان حکام کی جانب سے ’خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں اور مذہبی و نسلی بنیاد پر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک‘ کی مذمت کی۔گروپ نے طالبان حکام کی ’خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں پر کڑی تنقید کی۔طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ میں شامل غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی میں توسیع کے بعد سے عالمی برداری غم وغصے کا شکار ہے۔طالبان نے اس اقدام پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک اندرونی مسئلہ ہے جس کا تمام فریقین کو احترام کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی اہم انسانی امداد کے منصوبوں کے لیے ’بہت بڑا دھچکا‘ ثابت ہو سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے کہا تھا کہ ‘اگر طالبان اپنے حکم میں استثنٰی کی گنجائش پیدا نہیں کرتے تو یہ تباہ کن ہو گا۔مارٹن گریفتھس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’طالبان کی جانب سے 24 دسمبر کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے بعد خواتین کو امدادی گروپس میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ محکمہ صحت میں خواتین کو استثنٰی دیا گیا اور پرائمری تک سکول تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔‘اگست 2021 میں طالبان جب اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت کے بنسبت اس مرتبہ نرم پالیسیاں اپنانے کا وعدہ کیا تھا تاہم وقت کے ساتھ انہوں نے سخت پالیسیاں نافذ کیں۔وعدے کے باوجود طالبان نے خواتین کو زندگی کے تقریباً تمام شعبوں سے بے دخل کیا اور حال ہی میں لڑکیوں پر سیکنڈری اور اعلٰی تعلیم کے حصول کے دروازے بند کیے۔طالبان نے پبلک سیکٹر میں خواتین کی ملازمتوں اور ا±ن کے پارکس جانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔