عیشہ پیرزاد ہ
eishapirzada1@hotmail.com
الطاف بلوچ کا شمار پاکستان کے ایسے اعلٰی پائے کے بیوروکریٹس میں ہوتا ہے، جو کام کرنے کی لگن، ایمانداری اور دیانتداری کے سبب اپنی ممتاز پہچان رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے ملاقات ہوئی۔نوائے وقت تعلیمی ایڈیشن کیلئے ان کا خصوصی انٹرویو نذرِقارئین ہے۔
نوائے وقت: آپ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔معاشرے میں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ تعلیم کے لحاظ سے باقی پنجاب سے بہت پیچھے ہیں۔آپ اہم ترین عہدوں پر فائز رہے۔چھوٹے سے علاقے سے بڑے بڑے عہدوں تک کے سفر کا آغاز کیسے ہوا؟
الطاف بلوچ:ایسے لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اللہ ان کے لیے مواقع کا انتظام بھی کر دیتا ہے۔میری بھی یہی کوشش ہوتی تھی کہ پڑھ لکھ کر ایسا بن جائوں کہ اپنے وطن اورانسانوں کی فلاح کے لیے کچھ کرسکوں۔ پھر اللہ نے مجھے بھی مواقع دئیے۔اپنے سفر کاہوم ڈیپارٹمنٹ سے آغاز کرنے سے لیکر پچھلی پوسٹنگ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ جنوبی پنجاب تک اسی سوچ کے ساتھ ڈیوٹی کی کہ جو ذمہ داری ملی ہے،اس کو دیانتداری،نیک نیتی سے مکمل کروں۔
نوائے وقت:سمجھا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب تعلیم میں بہت پیچھے ہے۔اب جنوبی پنجاب کے محکمہ تعلیم کے سب سے بڑے عہدے کاچارج سنبھالنے کے بعدنظام تعلیم کی بہتری کیلئے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟
الطاف بلوچ:مجھے سیکرٹری ہائرایجوکیشن جنوبی پنجاب تعینات ہوئے ایک مہینے کے قریب کا وقت ہی ہوا ہے۔اس قلیل عرصے میں کالجز، یونیورسٹیز میں بہتری لانے کیلئے دن رات کام کرکے متعدد منصوبوں پر کام مکمل کرلیا ہے۔تمام منصوبوں پر عمل کرنے کیلئے بڑے اقدامات اٹھانے جارہا ہوں۔تمام لائبریز ڈیجٹلائز کی جائیں گی۔یہ ایسے منصوبے ہیں جن پرعمل ہونے کے بعد جنوبی پنجاب کے کالجز،یونیورسٹیز کی تقدیر بدل سکتی ہے۔اگر آپ کی تعیناتی کا عرصہ مکمل ہونے دیا جاتا ہے تو آپ اپنے بنائے گئے منصوبوں پرڈٹ کر کام کر سکتے ہیں۔ہمارا ہائر ایجوکیشن پر مختلف منصوبوں کا آغاز کرنے کے ذریعے فوکس ہے۔حکومت کالجز میں،یونیورسٹیز میں پیسہ لگاتی ہے تو چاہتی ہے کہ سٹوڈنٹس پڑھیں۔ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں سے باہر نکلنے والے یہ بچے ملکی اکانومی میں حصہ ڈالنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔
نوائے وقت: ہائر ایجوکیشن میں آپ کا مین ٹارگٹ کیا ہے؟
الطاف بلوچ: میرا مین ٹارگٹ کالجز کے اندر پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم بنانا ہے۔تمام فنکشنز،اساتذہ کے لیکچرز،لائبریری تک'ہر چیز کو سسٹم میں لانا،ڈیجیٹلائز کرنا ہے۔جس میں تمام کالجز کی کارکردگی، ان کی تعلیم، ان کے سٹوڈنٹس کے رزلٹ، ان کے کالجز کی رینکنگ شامل ہوگی۔ میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ بورڈز کے عہدیداروں کو بلا کر ہدایت کی ہے کہ آپ جو رزلٹ ترتیب دیتے ہیں اس میں بچوں کے رزلٹ کیساتھ ساتھ کالجز کا رزلٹ بھی بتایا جائے کہ کس کس کالجز کی کیا کیا کارکردگی رہی ہے۔ تاکہ ہر کالج کو ڈیٹا جائے اور ان کو پتہ لگے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں،کس سال میں کتنی پوزیشن ہے، کس کلاس میں کتنے پاس ہوئے، پرسنٹیج آف پاسز اینڈ فیلیئر کیا ہیں۔ اس طرح سے کالجز میں تعمیری مقابلوں کا رحجان فروغ پائے گا۔
نوائے وقت:تعلیم میں جنوبی پنجاب کے پیچھے رہنے کی کیا وجہ ہے؟
الطاف بلوچ:جنوبی پنجاب کے تعلیم میں پیچھے رہنے کی ایک بڑی وجہ طالبعلموں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اس پر آج تک کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ہم نیاس میدان میں بھی طلبہ کو کامیاب کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔خاص طور پر جنوبی پنجاب سے جب بھی کوئی سٹوڈنٹ میٹرک کرنے کے بعد کالج میں آتا ہے تو اکثر اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے مستقبل میں کیا منصوبے ہیں، وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس اپنے علم کا، یا خود کا اظہار کرنے کا کوئی ایسا اچھا طریقہ نہیں ہوتا کہ جس سے سامنے والا متاثر ہوجائے۔اس سلسلے میں ہم طلبہ میں اعتماد سازی کیلئے ہر کالج میں گروپ ڈسکشن کمیٹی بنانے جارہے ہیں۔ اساتذہ کو یہ ٹاسک سونپے جائیں گے کہ ہر ہفتے گروپ اکٹھا ہوکر دیے گئے مضمون پر انگریزی اور اردو میں تبادلہ خیال کرے۔اس طرح ان کی بولنے،بات کرنے میں دقت،ہچکچاہٹ دور ہوگی۔ طلبہ میں تخلیقی سوچ بیدار ہوگی۔ لکھنے کی صلاحیت بہتر ہوگی۔ یوں کالج سے ہی ہم اپنے طالب علم کو اس طرح سے نکھار دیں گے کہ وہ آگے یونیورسٹی میں جاکر اور پھر اس کے بعد عملی زندگی میں ایک کامیاب انسان ثابت ہو۔جس کا آخر کار فائدہ ملک کوہی ہوگا کہ پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوانوں کی بدولت ہی ہر ملک معاشی ترقی کرتا ہے۔اس طرح ہم ہاجین کلب بنانے جارہے ہیں۔ سٹوڈنٹس کی اپنی کلاسز ہونگی۔ سٹوڈنٹس کو ہی لے کر کالجز کی تمام تر صورتحال میں بہتری لانے کیلئے سٹوڈنٹس کو مانیٹر بنانے جارہے ہیں۔ سٹوڈنٹس کا ایک پورا گروپ ہوگا۔ سٹوڈنٹس خود اپنا رول ماڈل ہونگے، صفائی ستھرائی، پڑھائی لکھائی، ڈسپلن اور تہذیب میں ہمارے سٹوڈنٹس اپنی مثال آپ ہوںگے۔ تمام کالجز،یونیورسٹیز کے لان، کلاسز اور واش رومز کی صفائی کیلئے ایک مکمل سسٹم بنا دیا ہے۔کالجز میں اساتذہ کے لیکچررزیکارڈ کیے جائیں گے۔ان لیکچرز کو لائبریریز میں محفوظ کیا جائے گا۔ اس کے ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ رزلٹ آئیں گے۔ جب اساتذہ کو معلوم ہوگا کہ ان کا لیکچر ریکارڈ ہورہا ہے تو وہ بہت محتاط ہوجائیں گے، اچھی تیاری کے بغیر کالج آنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔ پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے، لیکچر کی اچھی تیاری ہوگی۔ سٹوڈنٹس بھی اچھے بچے کی طرح تیاری کرکے آئیں گے۔
نوائے وقت:طلبہ کی کارکردگی اتنی متاثر کن نہیں۔ کلاس رومز کی بہتری کیلئے کیا سوچ رکھا ہے؟
الطاف بلوچ:کلاس رومز میں ہم چاہ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل کلاس رومز بنائے جائیں۔ ہم کچھ ماڈل کلاس رومز سلیکٹ کرنے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے خواجہ فرید یونیورسٹی انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مکمل ڈیزائن بنانے کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔ اس میں سٹوڈنٹس کی پروفائل شامل کریں گے۔ سٹوڈنٹس کی حاضری،کارکردگی، کلاسز کی پوزیشنز کی تفصیلات ہونگی۔
نوائے وقت: محکمہ ہائر ایجوکیشن جنوبی پنجاب کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
الطاف بلوچ: مسائل یہ ہیں کہ بہت ساری ٹیچنگ سٹاف کی سیٹس خالی پڑی ہیں۔ انفراسٹرکچر بہتر نہیں ہے۔ کیپسٹی بلڈنگ کے نام سے کالجز کو پراجیکٹ بنانے کی ہدایت کی ہے۔ کوالٹی ایجوکیشن کی کمی ہے۔کوالٹی ایجوکیشن میں بہتری کیلئے ہی کلاس رومز میں لیکچرز ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔
نوائے وقت:طالب علموں کی راہنمائی کیلئے کون سا قدم اٹھانے کو ضرورت سمجھتے ہیں۔؟
الطاف بلوچ: الج سے ہی سٹوڈنٹس کی راہنمائی کیلئے کالجز میں کیریئر کونسلنگ سینٹر بنیں گے۔ بہت سے بچوں نے سوچ ہی نہیں رکھا ہوتا کہ انہوں نے مستقبل میں کرنا کیا ہے۔اس لیے ہم انٹرمیڈیٹ کی سطح پر جب سٹوڈنٹس میٹرک کے بعد داخلے کے لیے آتے ہیں تو ان کی کیریئر کونسلنگ کریں گے کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں، اور جو کرنا چاہتے ہیں اس کو بہتر طریقے کیساتھ کریں۔
نوائے وقت:پاکستان کے سرکاری اداروں کی مجموعی کارکردگی قابل مثال نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں سرکاری اداروں میں گڈ گورننس نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
الطاف بلوچ: اگر آپ کے عہدے کی تعیناتی کی مدت محفوظ ہوتی ہے تو آپ اپنے اقدامات کو نافذ کرسکتے ہیں۔اگر آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آج بیٹھے ہیں کل ٹرانسفر ہوجائے تو اس طرح کام کرنے والوں کا مورال ڈائون ہوتا ہے۔ کرنے کی چیزیں بہت سی ہیں، میں صرف پلان ہی نہیں کرتا، بلکہ عمل بھی کرتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ جب میں ڈپٹی کمشنر راجن پور تھا تو وہاں ایک ادارہ بنایا، جس کا نام مدینہ کے ماڈل کی طرح ’’دار المواخت‘‘ رکھا۔ اس میں وہاں کے مقامی مخیر حضرات کی ایگزیکٹو کمیٹی بنا کر اس کو چلایا، ڈی سی کو اس کا
سپروائزر بنایا ۔ بیوائوں،بے سہاروں،لڑکیوں کے جہیز اور راشن سمیت دیگر معاشی فلاح کا منصوبہ نافذ کیا گیا۔ 5 منٹ میں 20 لاکھ روپے اکٹھے ہوئے۔ گورنمنٹ کا ایک پیسا نہیں لگا۔ ہم نے صرف ایک منظم پلیٹ فارم مہیا کیا کہ اگر کسی نے کسی غریب کی شادی کرانی ہو،کسی کی مالی مدد کرنی ہو تو معاشرے کے لوگ خود آگے آئیں اورمنظم طریقے سے فلاحی کام کریں۔ اگر ہر افسر ایکسٹرا کام کرے تو معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے۔لیکن ہم کچھ کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں تو بے وقت کی تبدیلیاں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
نوائے وقت :افسران کی بہتر کارکردگی کے لیے کیا چیز سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے؟
بہتر کارکردگی کیلئے افسران کی تعیناتی کی مدت پوری ہونے دی جانی چاہیے۔ اچھی گورننس کیلئے کام کرنے کا موقع بہت معنی رکھتا ہے۔