مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
دنیا آگے بڑھتی چلی گئی، قلانچیں بھرتی ہوئی۔ اس نے سمت مقرر کی اور اس کی طرف رواں ہو گئی۔ ہمارا بھی سفر شروع ہوا۔بے سمت سفر دائرے میں سفر ’’کوہلو‘‘کے گرد گھومتے رہے، فخر کرتے ہیں۔ داستانیں سناتے ہیں مسلم امہ کی رہنمائی کے دعویدارہیں۔ دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا تمغہ سجائے پھرتے ہیں۔ اس ملت کی رہنمائی کرنے چلے ہیں۔جس نے ابن خلدون کے بعد سوئی تک ایجاد نہیں کی۔ ایٹم بم بنا لیا کیسے بنایا، یہ ایجاد نہیں ہے، یہ نقل ہے۔ جے ایف تھنڈر پر ناز ہے۔ ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔ اس میں کیا کمال کر لیا۔ چین کے جہازوں کی نقل کی جہاں مینوفیکچرنگ شروع کر دی۔ اپنا بھی کچھ ہے؟
ہمارے تو ہیروز بھی اپنے نہیں ہیں۔ غوری، غزنوی، ابدالی،ایوبی ،طارق بن زید ،خالد بن ولید ،حجاز بن یوسف اور محمد بن قاسم کہاں سے آئے، رائے احمد خان کھرل، بھگت سنگھ ،راجہ پورس جو دھرتی کے سپوت ہیں ان کا نام بھی بھلا دیا گیا ہے۔نہ جانے ہم خوابِ غفلت سے کب جاگیں گے؟ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی، ستاروں پر کمند ڈالنے کے ارادے تھے مگر ستارہ شناسی اور ستارہ پرستی میں پڑ گئے۔ ہندو نے ہم مسلمانوں سے آزادی حاصل کی تو کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ آج ہندوستان کی کرنسی روپے کو دنیا کے 18 ممالک عالمی کرنسی ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ بھارتی روپیہ مضبوط ہے۔ 80روپے کا ڈالر۔ ہمارے ہاں 300روپے کا۔ افغان کرنسی کبھی بے وقعت تھی ایک روپے 30افغانی۔ آج ایک افغانی تین روپے کے برابر۔ یہی عالم بنگلہ دیش کے ٹکے کا ہے۔ ایک ٹکے کے تین روپے۔ بنگلہ دیش نے بھی پاکستان سے آزادی حاصل کی، معیشت میں بڑا نام پیدا کیا۔ آج عالمی سطح پر ہم معیشت میں 140ویں نمبر پر ہیں۔ 216ممالک میں یہ ہماری اوقات ہے۔ باقی جو ہم سے پیچھے ممالک ہیں ان کی آبادی ہی کتنی ہے۔ لاکھوں میں ہو گی۔
ہمیں رشوت، اقرباپروری، میرٹ کے قتل نے بھی ڈبویا ہے۔ اور ہمارے اداروں نے طاقت ور ہونے کے نشے میں چْور ہو کر سارے اختیارات کا مالک اور قابض بن جانا چاہا۔ہم نے اپنے محافظ کو اپنی حفاظت کے لیے بندوق تھمائی اس اس نے اسی بندوق سے ہم پر کئی بار چڑھائی کر دی۔ جب کہ کافر و اغیار سے جتنی بھی ہماری لڑائیاں تھیں اس کا آج تک پتا نہیں چل سکاکہ کون جیتا کون ہار۔ دنیا آگے بہت آگے چلی گئی ہم ایک دوسرے کی ہر میدان میں ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو ناقابلِ برداشت سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ علمائ کرام جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیا رنہیں وہ سیاست کے میدان کے شہسوار بنتے ہیں تو شیروشکرہو کر باہم اقتدا ر کی طرف لپکتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ، مغلیہ ایمپائر سے کم کا ہم نام نہیں لیتے۔ ایسی سلطنت وہ سیاسی سپوت بنائیں گے جن کی اولادیں، جائیدادیں ملک سے باہر ہیں۔ جو صرف اقتدا رکی خاطر ملک میں آتے ہیں، ایک دوسرے کو غدار، ملک دشمن، نالائق، ناسور قرار دیتے ہیں اور پھر اقتدا رکی منزل حاصل کرنے کے لیے دشمنی تک کے اختلافات بھلا کر ہم رکاب اور ہم نوالا ہو جاتے ہیں۔
میں نے پچھلے چالیس سالوں میں دنیا کے ہر براعظم کے تقریباً ایک سو پچیس ممالک کا نہ صرف وزٹ کیا ہے بلکہ ایک لکھاری ہونے کے ناطے وہاں کے سماجی سیاسی معاشی نظام کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے تو بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وطن عزیز پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد نہ صرف Hypocrite ( منافق) ہے بلکہ جھوٹی ، مکار اور Overstated ( مبالغہ آرائی ) سے کام لینے والی ہے۔اکثریت ہی اجتماعیت کی عکاسی کرتی ہے اسی کو قوم کہا جاتا ہے۔ایسی سوچ کے حامل شخص کو اس کے حقیقت پسندانہ خیالات کے اظہارکے باعث اسے غدار ، ملت فروش ، باغی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ کچھ مذہب فروش تو سر کی قیمت لگانے پر اتر آتے ہیں۔ مجھے اس سے اور حقیقت کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی کچھ کہے مگر میرا تو پیغام اصلاح ہے جہاں تک پہنچے ،لہٰذا آئیے اپنی نسل و قوم کی تربیت اور اصلاح کریں ، آج کے تقاضوں کے مطابق ، ایک سچے مسلمان کی طرح !
قارئین!بحیثیت پاکستانی مجھے اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ میرے ہم وطنو کوسچ سننے کی عادت نہیں۔ گذشتہ روز خطے کے چار بڑے ممالک کے وزرائ خارجہ کی موجودہ معاشی ،سیاسی ،اور جغرافیائی صورت حال پر میٹنگ اور مکالمہ تھا۔ان ممالک میں ایران، روس ،چین اور پاکستان کے وزرائ خارجہ نے شرکت کرنی تھی چونکہ امریکہ کو اس کانفرنس سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے پاکستانی وزیرخارجہ جناب بلاول زرداری کو ایک عام پالیمنٹرین سے ملاقات کے لیے بلا لیا۔ جب کہ دوسری طرف خطے کے وزرائ خارجہ کی میٹنگ میں پاکستان کے وزیرخارجہ کو موجود ہونا چاہیے تھا مگر اس کی بجائے امور خارجہ کی چھوٹی وزیر حنا ربانی کھر کو اس میٹنگ میں بھیج دیا گیا اور روسی وزیراعظم نے وفاقی وزیر خارجہ کی بجائے جونیئر منسٹر کو دیکھا تو لقمہ دیا کہ آپ کی ٹیم کے سینئر ممبر کہاں ہیں ؟جس پر حنا ربانی کھر آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں جس سے باقی تینوں وزرا خارجہ محظوظ ضرور ہوئے ہوں گے۔قارئین! ملک کے اندر سیاسی کشمکش کا اتنا گمبھیر ہونا یقینا ملکی سلامتی کے لیے اچھا نہیں مگر سیاسی لڑائی کا یہ مقصد نہیں کہ مخالف دھڑے کو قانون اور آئین سے بالاتر ہو کر ہراساں کیا جائے یا انہیں اغوا کرکے تشدد اور ٹارچر کیا جائے۔پاکستان جس کی سلامتی کو اس وقت اَن گنت خطرات درپیش ہیں اسے بڑی ذہانت اور ڈپلومیسی سے حل کرنا چاہیے نا کہ سیاسی مخالفت کو دشمنی کی حد تک لے جا کر ٹیبل ٹاک کے راستے بند نہیں کر لینے چاہیے۔دنیا کی تمام مشہور جنگوں کے آخر کار فیصلے مذاکرات کی میز پر ہی ہوتے ہیں۔اب یہ پاکستان کے سیاسی قائدین کی مرضی ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک آج ہوتا ہے یا پھر بچا کھچا سب کچھ لوٹا کر؟