فیس بک ، یو ٹیوب ، ٹویٹر کے لئے بین الاقوامی قوانین کی ضرورت

Apr 19, 2023

اعجاز احمد

اعجاز احمد 
اگر ہم غور کریں تو موجودہ دور میں سوشل میڈیا ٹولز جس میں فیس بُک، یو ٹیوب، انسٹاگرام، ٹویٹرڈیجیٹل ذرائع ابلاع و سماجی روابط کے موثر اور کار آمد ذرائع ہیں۔مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مندرجہ بالا سماجی روابط و ذرائع پر متعصب ہندو اور یہودیوں کا کنٹرول ہے جسکی وجہ سے یہی ذرائع مسلمانوں ، پاکستانیوں اورخا ص طور پر دوسرے اسلامی ممالک  کے صارفین کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کرتے ہیں اور ان پر ایسی قدغنیں لگاتے ہیں جو بلا جواز ،غیر قانونی اور بین لاقوامی مسلمہ اصولوں کی خلاف ہوتی ہیں۔ یورپ اور عالمی برا دری میں اظہار آزادی کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ صرف کتابی ہیںاور حقیقت کے ساتھ اسکا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو گوگل سرچ انجن کا سربراہ سندر بچائی  اور ٹویٹر کا سربراہ پراگ اگر وال دونوں متعصب ہندو ہیں ۔ فیس بک اور سماجی روابط کے دوسرے ذرائعوںکے اعلی بین الاقوامی عہدوں پر متعصب ہندو  اور یا یہودی براجمان ہیں جسکی وجہ سے وہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کے خلاف منفی اور زہریلے پوسٹس بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔اگر بھارت ،امریکہ اسرائیل یا فرانس کے خلاف کوئیactual and Factualسٹوری یا پوسٹ بھی  فیس بک، ٹویٹر یا سماجی روابط کے دوسرے ذرائع پر دی جاتی ہیں  تو وہ خبرسوشل  میڈیا سے اُڑا دی جاتی ہے اور کسی نہ کسی بہانے اکائونٹ یا پیج بند کیا جاتا ہے۔تاکہ متعصب یہودی اور ہندو خوش ہوں۔اگر ہم عالمی سطح پر فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب، انسٹاگرام کے ناظرین پر نظر ڈالیں ان میں سب سے یہ ایپس استعمال کرنے والے ہندو ہیں۔ بزنس لالچ کی وجہ سے انہی ایپس کے اعلی عہدیداران بھارت سے رکھے جاتے ہیں جو بد قسمتی سے اظہار آزادی  و آزادی صحافت کے بجائے بھارتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔نتیجتاًچھوٹے چھوٹے معاملات پر مسلمانوں اور خا ص طور پر پاکستانیوں کے فیس بک ٹویٹر، اور یوٹیوب اکائونٹ یا تو بند کئے جاتے ہیں اور  یا مختلف طریقوں سے انکی حو صلہ شکنی کی جاتی ہے۔جس طرح حال ہی میں فیس بک ، تویٹر اور یو ٹیوب اور ابلاغ عامہ کے دو سرے ذرائعوں نے اسرائیل اور فلسطین جنگ میں نہ صرف مخالفین کے الیکٹرانک چینلز بند کرائے بلکہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے اکائونٹس سے فلسطین پر اسرائیلی کے ہاتھوں مظالم کے ویڈیو اور انکے سوشل میڈیا اکائونٹ بند کئے گئے۔حال ہی میں فیس بک کی ایک خاتون منیجر نے اس وجہ سے فیس بک سے مستعفی ہوئی انکا کہنا تھا کہ فیس بک کی ٹاپ مینیجمنٹ ٹھیک نہیں وہ اپنے منافع کے خاطر جرائم کو بڑحا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔چونکہ میرا بھی صوابی کیپیٹل نیوز کے نام سے فیس بک پیج تھا ۔ راقم نہ صرف صحافتی آداب و اقدار کو بخوبی جانتا ہے  اور ساتھ ساتھ اسپر عمل بھی کرتا ہے کیونکہ سائل پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا وسیع و عریض تجربہ رکھتے ہیں ۔ ہمارے اس پیج کے سبسکرائبر کی تعداد 72 ہزار تھی مگر اس پیج کی پہنچ کروڑوں میں تھی اس فیس بک پیج کو اسلئے پہلے معطل اور بعد  میں بند کیا گیا کیونکہ ایک دن جماعت اسلامی امیر سراج الحق کے حوالے سے امریکہ کی شکست کی خبر دی گئی۔ اور اسی وجہ سے گذشتہ تین چار مہینوں سے صوابی کیپٹل نیوز کا پیج معطل ہے۔  حالانکہ کسی بھی فیس بک اور یوٹیوب  پیج کو ایک مقام تک پہنچانے کے لئے  ۴ یا ۵ سال لگتے ہیں۔ اس قسم کا غیر مناسب اور فضول رویہ  میرے علاوہ اور بھی ہزاروں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جس سے کسی بھی سبسکرائبر کو ذہنی  طور پر پریشان کیا جاتا ہے۔اس کالم کی توسط سے میں بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر چین، روس اور ترکی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کی طرح اپنے ایپس کھولیں تاکہ فیس بک ، تویٹر ، انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر ان متعصب یہودیوں اور ہندوں کی منفی صحافتی جا رحیت سے بچا سکے۔علاوہ ازیں میں روس چین اور اظہار آزادی کے قائل دوسرے ممالک سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ان ایپس پر براجمان لٹیروں پر دبائو ڈالیں اور انکو قابو کرنے کے لئے  بین الاقوامی قانون سازی کریں تاکہ سوشل میڈیا کا منصفانہ اور غیر جانب دارانہ استعمال ہو۔اس سلسلے میں اگر بین الاقوامی برادری کسی قسم کے قانون سازی میں ناکام ہو تو پھر روس چین اور اظہار آزادی کے قائل ممالک اور طاقتوں کو چاہئے کہ وہ مندرجہ بالا ایپس کے مقابلے میں اپنے ایپس متعارف کروالیں تاکہ ان کے منفی ہتھکنڈوں  آزادی صحافت اور اظہار آزادی والوں کو چھٹکارہ ملے۔اب امریکہ، بھارت اور اسرائیل، ٹیکنالوجی اور سماجی روابط کے ایپس اور دوسرے ذریعوں سے اگر ملکوں کو غلام رکھنا چاہتے ہیں تو وہ دن گئے ۔ کیونکہ دنیا کے بہت سارے ممالک اسرائیل ، بھارت اور امریکہ سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں۔ دنیا کو دھوکے  دھونس کے بجائے حقائق اور سچ بتا نا چاہئے کیونکہ اکسویں صدی میں غلامی کی زنجیروں کے بجائے علم، سائنس وٹیکنالوجی اور فہم سے ملکوں کو قابو کرنا ہوگا۔ میں اس کالم کے توسط سے ایک دفعہ پھر چین، روس، ترکی اور اظہار آزادی پر یقین رکھنے والے دوسرے ممالک سے استد عاکرتا ہوں کہ وہ اس کے حل کے لئے مثبت اقدمات کریں اور دنیا کے عوام کو ٹیکنالوجی کی غلامی سے نجات دلائیں. 

مزیدخبریں