وزیراعظم شہبازشریف نے بتایا ہے کہ برادر سعودی عرب نے کمال مہربانی سے ہمیں مزید دو ارب ڈالر دے دیئے ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے بھی ہمیں ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف کی یہ شرط بھی پوری ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود زرمبادلہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف بیل آ ئوٹ پیکج کے تحت سے اگلی قسط کی صرف ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کے لئے ہمارے حکمرانوں سے ناک اور ایڑیاں رگڑوا رہا ہے اور اس کی ہر شرط پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے اتحادی حکومت نے روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا بھرکس نکلوا دیا ہے مگر آئی ایم ایف پھر بھی مطمئن نہیں اور اس نے پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے اس پر دوسرے ممالک سے بھی مالی معاونت لینے کی شرط عائد کردی ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے پاکستان کے مخلص اور بے لوث دوستوں نے پہلے بھی پاکستان کی معاونت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اب بھی انہوں نے مالی معاونت کی پاکستان کی درخواست پر کسی پیشگی شرط کے بغیر عمل کیا ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ دانستہ بے اعتنائی والا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور سٹاف لیول معاہدے کے لئے ابھی تک زبانی جمع خرچ سے ہی کام لیا جا رہا ہے جو اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ آئی ایم ایف ہماری معیشت پر مکمل دسترس حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت حال میں قوم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر چین اور برادر مسلم ممالک کی جانب سے پاکستان کو خطیر مالی معاونت حاصل ہو رہی ہے تو انہیں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی مجبوری کیوں لاحق ہوئی اور ان برادر ممالک سے پی ٹی آئی اور موجودہ دور حکومت میں حاصل ہونے والی اس خطیر رقم کا کس مد میں استعمال ہوا ہے۔ امداد دینے والے برادر ممالک بھی اس طرح ہی ہم پر اعتماد قائم رکھ پائیں گے کہ ان سے وصول ہونے والی رقوم شفاف انداز میں بروئے کار لائی جائیں۔ اب کوشش کی جائے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ بیل آ?ٹ پیکج ہمارے لئے آخری پیکج ہو اور ہمیں مزید قرض کے لئے اس کے دوپر دو زانو ہو کر بیٹھنے کی کوئی مجبوری لاحق نہ رہے۔
برادر مسلم ممالک کی ہمارے ساتھ فراخدلی
Apr 19, 2023