ہمارا عدالتی نظام

 وکلائ، صحافیوں اور سیاسی قائدین سے بھری سب سے بڑی عدالت نے جب بڑے کیس کا بڑا فیصلہ سنایا تو اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دی۔ عدالتی فیصلے سے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ تنقید اور بحث و تکرار شروع ہو گئی۔ وکلائ، صحافی، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کار ہی نہیں، عام لوگ بھی اس لاحاصل بحث میں الجھ گئے۔ فیصلے کو قانون کے عین مطابق قرار دینے والوں میں پی ٹی آئی زعماء اور ان کے ہم خیال تجزیہ کار شامل ہیں جبکہ حکومتی زعماء اور اْن کے ہم خیال اس فیصلے کو متنازع قرار دے رہے ہیں اور اسے ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن التوا کے حوالے سے یہ بڑا عدالتی فیصلہ تھا جس میں دونوں جانب کے نامور وکلاء سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں اپنے کلائنٹس کے اصولی مؤقف کا زبردست طریقے سے دفاع اور اعادہ کیا۔ چیف جسٹس نے حکومتی مطالبے کے باوجود اس ہائی پروفائل کیس کے لیے فل کورٹ نہیں بنایا۔ بنا دیتے تو آج اس فیصلے پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں وہ نہ کیے جاتے۔
کہا جا تا ہے عدالتوں کو سیاسی نوعیت کے کیس نہیں لینے چاہئیں۔ ایسے کیسوں سے عدالتوں کا وقار مجروح اور متاثر ہوتا ہے۔ یہ سچ بھی ہے۔ الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ جیسے بڑے عدالتی فورم کو متنازع بنا دیا گیا جس کے اثرات چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی اور آخری عدالت ہے۔ قانون نے عدالتِ عظمیٰ کو بڑے اختیارات دیے ہیں۔ سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا بھی اختیارحاصل ہے۔ یہ سوموٹو سپریم کورٹ کی صوابدید کے مطابق کسی بھی نوعیت کے معاملے پر لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں سپریم کورٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے جو اختیارات حاصل ہیں وہ کسی دوسری عدالت کو حاصل نہیں۔ آئین کے منافی کوئی کام ہو رہا ہو تو عدالتِ عظمیٰ اس پر سوموٹو نوٹس لے سکتی ہے۔ قابل سماعت درخواستیں بھی برائے سماعت ججوں تک پہنچتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ فیصلے اس کی ویب سائٹ پر ریلیز کر دیے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی ایک سالانہ رپورٹ بھی چھپتی ہے جسے وکلاء اپنے زیر سماعت کیسوں میں حوالوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے بعد صوبائی سطح پر ہائی کورٹس اپنا وجود رکھتی ہیں۔
ہائی کورٹس کے پاس بھی بے شمار وسیع اختیارات ہیں۔ سیشن کورٹ میں ہونے والے فیصلوں کو ہائی کورٹس میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر سیشن کورٹ نے خلافِ قانون کوئی فیصلہ دیا ہو۔ ہائی کورٹ سماعت کے بعد سیشن کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر سکتی ہے۔ ہائی کورٹ کے بعد ضلعی سطح پر بھی عدالتیں متحرک ہوتی ہیں۔ جو ضلعی تحصیل اور ڈویژنل سطح کے آئینی معاملات نمٹاتی ہیں۔ یہ سیشن عدالتیں صوبے کی ہائی کورٹس کے ماتحت اور ان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ سول نوعیت کے کیسوں میں سول عدالتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ سول عدالتیں سیشن کورٹس کے ماتحت اور ضلعی سیشن جج کے سامنے جوابدہ ہیں۔ مقدمات کی پیروی کے دوران اگر کسی فریق کو ضلعی عدالتوں کے فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ ہائی کورٹ میں قائم ایپلٹ بورڈ میں درخواست دائر کر سکتا ہے جس کا مقصد عوام کو شفاف ترین انصاف کی فراہمی ہے لیکن ہمارے ہاں کسی کو بھی فوری اور سستا انصاف نہیں ملتا۔ عدالتوں میں سالہا سال دیوانی کیس چلتے ہیں۔ جب پھل کھانے کا وقت آتا ہے تو مدعی دنیا سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ 
فوجداری کے نامور وکیل قیوم طاہر چودھری سے میری بات ہوئی تو انھوں نے موجودہ عدالتی نظام پر اظہار تشویش کیا۔ قیوم طاہر چودھری کا کہنا تھا کہ سیشن کورٹ سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کو ڈیتھ سیل میںبند کیا جاتا ہے۔ ڈیتھ سیل درحقیقت جیل کے اندر ایک اور جیل ہوتی ہے جس میں رہنے کے اپنے ضابطے ہیں۔ جب تک ہائی کورٹ میں سزائے موت کے کسی قیدی کی اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ اس ڈیتھ سیل میں بند گلتا سڑتا رہتا ہے۔ بے شمار اذیتیں برداشت کرتا ہے۔ ہائی کورٹ میں کسی بھی مجرم کی اپیل تین یا چار سال تک برائے سماعت عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتی۔ اکثر مجرم شک کا فائدہ اٹھا کر ہائی کورٹ سے بری ہو جاتے ہیں لیکن ڈیتھ سیل میں گزرے اپنے اذیت بھرے چار سال نہیں بھول پاتے۔ حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ لوگ ڈیتھ سیل میں شفٹ ہو کر اذیتوں اور تکلیفوں کا شکار نہ ہوں ۔ یہ بڑ انسانی مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
لوئر کورٹس کی سطح پر بھی سائلین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زیادہ شکایات کرپشن کے حوالے سے ہوتی ہیں۔ سائلین کا کہنا ہے سول جج یا مجسٹریٹ کا ریڈر کورٹ میں ہی اپنے ’صاحب‘ کی موجودگی میں من پسند تاریخ کے لیے من مانے پیسے مانگتا ہے۔ پیسے دے دو تو مسئلہ جلدی حل ہو جاتا ہے ورنہ بے شمار دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ انتظار کی زحمت الگ سے اٹھانا پڑتی ہے۔ عدالت عظمی اور ہائی کورٹس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوئر کورٹس کے معاملات کو دیکھیں اور انھیں بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ یہاں کرپشن اور بدعنوانی کی بہت زیادہ شکایات ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے مثبت اقدامات اور پالیسی کی ضرورت ہے ورنہ عدالتوں پر اسی طرح انگلیاں اور سوال اٹھتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن