سرینگر میں جی ٹونٹی سربراہ کانفرنس کی تیاری

اس بات سے قطع نظر کہ اس وقت پاکستان میں کس کی حکومت ہے۔ وزیر خارجہ کون ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی غیر موثر خارجہ پالیسی کے نتائج ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ 2019ء میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے بھارتی ریاست قرار دیکر عملی طور پر مسئلہ کشمیر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اب ہمارے سابق حکمران یا موجودہ حکمران لاکھ مسئلہ کشمیر پر زور دار تقریریں کریں۔ اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کو آب زر سے لکھنے کے قابل قرار دیں۔ یا موجودہ وزیر خارجہ اپنے نانا کو کشمیریوں کا سب سے وکیل قرار دیں۔ مگر اس حقیقت سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی تمام تر چر بہ زبانی کے باوجود بھارت نے عالمی رائے عامہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر کسی کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ 2019ء میں کشمیر کو بھارتی ریاست قرار دینے کا فیصلہ بھارتی رعونت اور ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا عکاس ہے کہ دنیا میں کسی ملک نے اس پر وہ احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا جس کی پاکستان کو توقع تھی۔ 
ماسوائے چین کے جو ایک ایسا ملک ہے جو اس مسئلہ کا ایک فریق بھی ہے کیونکہ اقصائے چین کا علاقہ اس کے زیر کنٹرول ہے اور نقشہ میں یہ متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے چین نے کھل کر بھارت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے عالمی قراردادوں کے خلاف قرار دیا مگر بھارت اپنی روایتی اٹوٹ انگ والی گردان دھراتا رہا۔
پاکستان گزشتہ 72 سالوں سے مسئلہ کشمیر پر واضح مؤقف رکھنے کے باوجود کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دینے کے باوجود ابھی تک باقی دنیا کی بات چھوڑیں خود اسلامی برادر ممالک کو اپنا ہمنوا نہ بنا سکا جو کشمیر میں مسلم کش اقدامات پر بھارت کا ہاتھ روک سکتے تھے۔ پاکستان کی اس سے بڑی خارجہ پالیسی کی ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ گزشتہ سال متحدہ عرب امارات کے تجارتی وفد اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں ایک مذاکراتی دور ہوا جس میں امارات کے اس تجارتی وفد نے سری نگر میں ایک طویل المعیاد تجارتی معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت متحدہ عرب امارات کشمیر میں بڑے تجارتی مرکز اور شاپنگ مالز بنائے گا جس پر اربوں روپے لاگت آئے گی اس سے وہاں کی مقامی سیاحتی اور صنعتی ترقی کو فروغ ملے گا کیا یہ عالمی قراردادوں، اسلامی سربراہ تنظیم اور پاکستان کے مؤقف سے انحراف نہیں۔ اس وقت کسی نے اس معاہدے پر احتجاج نہیں کیا متحدہ عرب امارات کو نہیں روکا اسی سبب بھارت دلیر ہو گیا اور اب وہاں یعنی مقبوضہ کشمیر میں عالمی جی ٹونٹی ممالک کی کانفرنس منعقد کروا رہا ہے۔ اس سے قبل بھارت میں جرات نہیں تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کرکٹ کا کوئی عالمی میچ ہی کروا سکے۔ بھارت کے ان جارحانہ اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ عالمی تجارتی صنعتی تنظیموں کو دیگر ممالک کو مقبوضہ کشمیر میں زرعی صنعتی تجارتی اور سیاحتی میدان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم فراموش کر کے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرنے لگی ہے اب تو آئینی اور قانونی طور پر بھارت نے جو تھوڑی بہت رعایت کشمیریوں کو دی تھی وہ بھی ختم کر دی ہے اور سب تماشہ دیکھتے رہ گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے دوست ممالک کو جن میں چین، انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جی ٹونٹی سربراہ کانفرنس کرانے پر بھارت سے اعتراض اور عدم شرکت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ یہی سب سے بڑا سوال اور امتحان ہے کیونکہ اس وقت جی ٹونٹی کانفرس کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔ یہ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں پر مبنی ممالک کی تنظیم ہے جن کا عالمی ڈی جی پی میں 80 فیصد حصہ ہے۔ ستمبر 2023ء میں اس کا اجلاس بھارت میں منعقد ہونا ہے پہلے اندازہ تھا کہ یہ کانفرنس نئی دہلی میں ہوگی مگر بھارت نے نہایت مکاری سے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ کانفرنس سری نگر میں منعقد ہوگی۔
اس صورتحال میں اب بھی وقت ہے کہ بھارت کے اس جارحانہ خارجہ پالیسی کے جواب میں پاکستان بھی ایک مضبوط مؤقف کے ساتھ میدان میں اترے اور اپنے قریبی دوست ممالک کو آمادہ کر ے کہ وہ بھارت پر دباو ڈالیں کہ وہ یہ اہم کانفرنس کشمیر کے متنازعہ علاقے میں نہ کرائے۔ جرمنی سے بھی پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ فرانس اور دیگر یورپی یونین کے ممالک کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے بدترین انسانی حقوق کی پامالی اور اظہار رائے و سیاسی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگا کر کے انہیں بھی سری نگر میں جی ٹونٹی سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر بھارت سے مقام کی تبدیلی پر زور دیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اس وقت ویسے ہی اِدھر اْدھر غیر ملکی دوروں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے براہ راست جی ٹونٹی سربراہ کانفرنس کے ممبر ممالک کے طوفانی دورے کریں وہاں تجربہ کار سفارتی عملے کو لے جائیں۔ تین ماہ بہت ہیں۔ اگر وہ اپنے دوست ممالک کو اپنا ہمنوا بنا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ انکی بڑی کامیابی ہوگی۔ اس لئے ہماری وزارت خارجہ کو سر دھڑ کی بازی لگانا ہوگی۔ ا س وقت بھی ہمیں چین ا ور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ انڈونیشیا بھی ہمارا ہمنوا ہے۔ اگر سعودی عرب بھی ڈٹ جائے تو بھارت کے لئے سری نگر میں اس کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔
یہ ہماری وزارت خارجہ کیلئے کڑا امتحان ہے، اب ملک و قوم کے مفاد میں سب کو خارجہ سطح پر صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا کہ جی ٹی ٹونٹی کانفرنس سری نگر میں نہیں ہو۔ جی ٹونٹی ممالک میں ہمارے سفارتخانے ہر سطح پر بھرپور مہم چلائیں کوشش کریں کے یہ ممالک پاکستان کے مؤقف سے اتفاق کریں ورنہ یاد رکھیں یہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن