یورپ اور امریکا کی وجہ سے ایشیاء تغیرات کی زد میں رہا ہے ، 60 ء کی دہائی میں جب ویتنام میں امریکا بارش کی طرح بم بر سا رہا تھا اور چین پابندیوں کا شکار تھا اسی صورتحال کے پیشِ نظر سویت یو نین سرد جنگ میں مشغول تھا ،ماسوائے جاپان کے تمام ایشیائی ممالک کی معیشت بحران کا شکار تھی ، جاپان کے بعد پاکستان ایشیاء کا دوسرا ترقی کرتا ہوا ملک تھا۔ ایشیاء کے دوسرے ممالک بھی معیشت کی بد حالی کا شکار تھے، ایسے انحطاط کے شکار خطے میں کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ 1966 ء میں قائم کیا گیا ایشیائی ترقیاتی بینک اس خطے میں خوشحالی لا پائے گا، آج ایشیاء ترقی کا گیٹ وے بن کرابھرا ہے، دنیا کی 30 فیصد پیداوار ایشیاء کی منڈیوں سے پوری ہو رہی ہے جبکہ یہ پیداواری صلاحیت2050 ء میں 50 فیصد ہوجائے گی۔
امریکا کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد اب ایشیا ء کی سیاسی اور معاشی صورتحال مستحکم ہونے کے ساتھ مثبت رویوں میں بھی حیران کن تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کئی صدیوں بعد چین اور جاپان ایک دوسرے کے قریب ہوئے، چین اور برازیل کے سفارتی تعلقات کی تجدید اور اہم معاملات پر اتفاق ہوا، چین کی ثالثی سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بحالی سے امریکا اور اس کے حواریوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ امریکا کی توجہ کا مرکز وسط ایشیاء کے ممالک قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان کے قدرتی وسائل اور محلِ وقوع ہے،روس اور چین امریکا کی ان ریاستوں میں دلچسپی میں چھپے پسِ پردہ عزائم سے واقف ہیں لہٰذاچین اور روس مل کر خطے کے ممالک میں افہام و تفہیم پیدا کرنے میں حیرت انگیز طور پر کامیاب ہوئے ہیں اورچاہتے ہیں کہ سابق سویت یونین کی یہ پانچ ریاستیں امریکا سے دور رہیں۔ اس کی دوسری اہم وجہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انحلاء کے بعدکابل پر طالبان نے کنٹرول حاصل کیا اور شمالی علاقوں کی طرف رخ کرنے لگے چند طالبان کمانڈروں نے خطے کے دوسرے ممالک میں طالبانائزیشن کی دھمکی بھی دی اس دھمکی کے پیشِ نظر چین اور روس سابق سویت ریاستوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے ۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ان ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے تاجکستان میں اڈے محفوط بنانے کے لیے30 سال کا معاہدہ کر رکھا ہے ، اس سے پیشتر پیوٹن نے کرغستان کے ساتھ ایئر بیس کے لیے 20 سال کا معاہدہ کیا تھا ، پیوٹن اس خطے میں امریکا کی کم سے کم موجودگی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں ، چین بھی امریکا کی وسط ایشیاء کے ممالک میں موجودگی کو ناپسند کرتا ہے یہاں تک کہ اب چین نے سمندری انٹر نیٹ کیبل سے امریکا کی اجارہ داری کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت چین کی تین کمپنیاں 50 کروڑ ڈالر کی مالیت سے مرحلہ وار سب سی کیبل نیٹ ورک میں فائبر آپٹک کے ذریعے یورپ کو مڈل ایسٹ اور پھر ایشیاء کو آپس میں ملائیں گے ۔
امریکا کی ایشیاء میں جارحانہ پالیسیاں خطے کو غیر مستحکم کرنے اور امریکی مفادات کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی ہے جس سے بالخصوص وسط ایشیاء اور بالعموم سارے ا یشیاء میں پوشیدہ عالمی جنگ کے خطرات محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ ریپبلکن رہنما مسٹر میک کارتھی رواں سال تائیوان کے دورے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن خدشہ تھا کہ چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو لہٰذا اس خدشہ کی بنا پر انھوں نے تائیوان کی صدر سے کیلیفورنیا میں ملنے پر ترجیح دی ۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے جبکہ ’ون چائنا پالیسی‘ کے تحت امریکا نے دوہرا رویہ اپنایا ہوا ہے کہ واشنگٹن تائیوان کی صدر کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن جمہوری طور پر تائیوان کو ہتھیار فروخت کرتا ہے ۔ تائیوان کے معاملے پر گزشتہ برس امریکی اور چینی صدور کے مابین دو گھنٹہ فون کال ہوئی جس میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کو خبر دار کیا صدر جو بائیڈن نے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو بتایا کہ امریکا تائیوان کی خود مختار حیثیت کوتبدیل کرنے کی یکطرفہ کوشش کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جبکہ صدر شی پنگ نے امریکی صدر کو ’ون چائنا پالیسی‘ کی پاسداری کرنے کو کہا اور متنبہ کیا کہ ’جو آگ سے کھیل رہے ہیں وہ جل جائیں گے۔
چین نے مک کارتھی سے تائیوانی صدر کی ملاقات کے بعد تائیوان کی سرحدوں کے قریب فوجی مشقیںکیں مشقوں کے دوران تائیوان پر بھر پور حملے ، جزیرے کے فضائی اور زمینی محاصرے کی ریہرسل کے دوران کم سے کم 71 چینی طیاروں نے پروازیں کیں اور 11 چینی بحری جہازوں نے حصہ لیا۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر بھی کئی بار تائیوان کے معاملے میں چین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر امریکا کو خبر دار کر چکے ہیں۔ ہنری کسنجر کا خیال ہے کہ چین تائیوان کے معاملے میں ہر گز پیچھے نہیں ہٹے گا لہٰذا اس سلسلے میں امریکی دبائو کے غیر متوقع نتائج سامنے آئیں گے۔ روس نے چین کی فوجی مشقوں کو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق قرار دیا اور کہا کہ چین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بار بار کی اشتعال انگیزیوں کا جواب دے، دفاعی لحاظ سے کمزو ر ، قدرتی وسائل سے مالا مال اور معاشی لحاظ سے مستحکم ممالک میںامریکا انتشار پیدا کر کے جارحیت کے ذریعے ان کے وسائل کو لوٹ کر غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،امریکا کی جارحانہ پالیسیوں سے ایشیاء عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے.