سیاسی ڈائیلاگ کے امکانات

گزشتہ ایک سال کی سیاسی رسہ کشی بلکہ جنگ وجدل کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ برف پگھلنا شروع ہوئی ہے- ماضی میں سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے یا حالات کو مثبت سمت دینے کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان تاریخ ساز کردار ادا کیا کرتے تھے- ان کی اپنی جماعت تو بہت چھوٹی تھی البتہ ان کا سیاسی قد کاٹھ بہت بڑا تھا - ہر جماعت کے سیاست دان ان کی عزت کرتے تھے- پاکستان کی سیاست میں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا کردار قابل رشک رہا ہے- وہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جن کو سابق چیف جسٹس پاکستان محترم آصف سعید کھوسہ نے اوپن کورٹ میں دیانت دار شخصیت قرار دیا تھا- جماعت اسلامی نے ملک کے تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنے کے لیے معاونت کا مثبت کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے- حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی جانب سے حوصلہ افزا اشارے ملنے کے بعد محترم سراج الحق نے جماعت کے سینئر لیڈروں کے ہمراہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور انکو انتخابات کے سلسلے میں بالواسطہ مذاکرات پر آمادہ کیا- وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد محترم سراج الحق نے جماعت اسلامی کے نائب امیر محترم لیاقت بلوچ اور سیکرٹری جنرل محترم امیرالعظیم کے ہمراہ زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی- محترم لیاقت بلوچ نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ انہوں نے عمران خان کو باور کرایا کی ان کی مقبولیت عروج پر ہے ان حالات میں اگر وہ انتخابات نہ کرا سکیں اور محاذ آرائی کی صورت حال جاری رہے تو غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں- عمران خان نے اپنی جماعت کے نمائندوں کے ذریعے بات چیت پر آمادگی ظاہر کر دی-
جماعت اسلامی کی پر خلوص اور نیک نیتی پر مبنی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں- مسلم لیگ نون نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں سابق سپیکر قومی اسمبلی محترم ایاز صادق اور وفاقی وزیر ریلوے محترم خواجہ سعد رفیق شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف کی کمیٹی میں سابق وزیر دفاع محترم پرویز خٹک سابق صوبائی وزیر محترم محمودالرشید اور سینٹر محترم اعجاز چوہدری شاملِ ہیں- اطلاعات کے مطابق عید کے بعد پارلیمانی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی اور ملک میں ایک ہی روز عام انتخابات کرانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا تاکہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین سیاسی و معاشی بحران ختم کیا جا سکے- پی پی پی کے مرکزی رہنما آصف زرداری اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس سال اگست میں عام انتخابات کرانے کا عندیہ دے چکے ہیں- سپریم کورٹ اور پارلیمان کے درمیان بد قسمت جنگ ہنوز جاری ہے- سپریم کورٹ کے ججوں اور وکلاء  میں تقسیم واضح ہے- صف بندی کی جاری ہے- پاکستان کے نامور وکلاء محترم اعتزاز احسن‘ محترم حامد خان‘ محترم لطیف کھوسہ‘ محترم عابد زبیری‘ محترم خواجہ طارق رحیم‘ محترمہ ربیعہ باجوہ‘ محترم سلمان اکرم راجہ اور محترم انور منصور خان نے ایک گول میز کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان کا آئین سپریم ہے اور سب ریاستی ادارے آئین کے پابند ہیں- پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد ہونا چاہیے- پاکستان بار کونسل نے پارلیمنٹ کے عدالتی بل کے دفاع اور 8 رکنی بنچ کے حکم امتناعی کے خلاف احتجاج کے لیے 18 جولائی کو یوم سیاہ منایا اور کہا کہ عدالتی اصلاحات وکلاء برادری کا دو دہائیوں کا مطالبہ ہے جو پارلیمنٹ نے پورا کیا ہے- محترم ہارون الرشید محترم احسن بھون اور محترم حسن رضا پاشا نے موقف اختیار کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا ایشو صوبائی ہائی کورٹس کے زیر سماعت تھا لہٰذا اس ایشو پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر آئین سے تجاوز کیا-
پی پی پی نے بھی اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرنے  اور انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں ان میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے  ملاقاتیں شروع کر دی ہیں وزیراعظم پاکستان نے بھی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے مشاورتی اجلاس کیا ہے- تحریک انصاف کے لیڈروں نے بھی  جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں- پاکستان کے بڑے تاجر میڈیا اور سول سوسائٹی بھی سیاستدانوں پر مفاہمت کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں-  بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ ادراک ہونے لگا ہے کہ انتخابات کا مسئلہ ڈائیلاگ کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا-اس مسئلے کے حل کے لیے سپریم کورٹ مناسب فورم نہیں ہے-سپریم کورٹ نے جب بھی کسی سیاسی ایشو پر فیصلہ دینے کی کوشش کی تو  اس کی اپنی ساکھ متاثر ہونے لگی لہٰذا چیف جسٹس پاکستان کو سیاسی معاملات میں ملوث ہونے سے گریز ہی کرنا چاہیے-وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنائ￿  اللہ نے ایک اشتعال انگیز بیان میں کہا ہے کہ جو مرضی کر لیں 14 مئی کو کسی صورت انتخابات نہیں کرائے جائیں گے - ایسے عاقبت نااندیش بیانات سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے-گذشتہ ہفتے پاکستان جاگو تحریک کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے ملاقات کی- اس وفد  میں محترم طارق مشتاق ‘محترم ڈاکٹر محمد صادق‘ محترم افتخار الحق‘ محترم خواجہ وحید اور محترم طیب احمد شامل تھے- گفتگو کے دوران محترم خورشید قصوری نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ بد قسمتی سے سیاسی نفرتیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ میاں نواز شریف  اور عمران خان دونوں ایک دوسرے کو اقتدار میں دیکھنے کے بجائے مارشل لاء کے نفاذ کو ترجیح دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں-حکمران اتحادی جماعتیں اگر مزاکرات اور سیاسی مفاہمت میں سنجیدہ ہیں تو انہیں کشیدگی کم کرنے کیلئے اعتماد سازی کے ٹھوس اقدامات اٹھانے پڑیں گے- پاکستان کے میڈیا محب الوطن حلقوں اور افراد کو جماعت اسلامی کی کوششوں سے تعاون کرنا چاہیے - سپریم کورٹ کو جلد بازی کے بجائے سیاستدانوں کو مذاکرات کے ذریعے انتخابات کا مسئلہ حل کرنے کا موقع دینا چاہیے - 

ای پیپر دی نیشن