امیر محمد خان
گزشتہ ہفتہ ایران نے اسرائیل پر میزائل پھینک کر دنیا میں کھلبلی مچادی، یہ میزائل اسرائیل کی جانب سے گزشتہ کئی ماہ سے جاری غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت صغری ،ہسپتالوں پر داغی بارود، ننھے بچوںکی چیخوں ، شیر خوار بچوںکی شہادت پر غم و غصہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر فضائی حملے اور شہادتوںکے جواب میں اسرائیل کو ایک ”چتاونی “تھی۔ اسرائیل کے ظلم و ستم کے حامی یورپی ممالک اور اسرائیل کی پشت پر موجود امریکہ نے کھلبلی مچادی ، ایران کا یہ حملہ مکمل طور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51کے مطابق تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ملک رکن ممالک پر مسلح حملہ کرتا ہے ( سفارت خانہ بھی اس ملک کا حصہ سمجھا جاتا ہے ) تو جب تک سلامتی کونسل ضوری اقدامات نہ کرے امن و امان کی خاطر اپنے دفاع کا حق ہے ، امریکہ کو ایران کی طاقت کا علم تھا اسلئے ابتداءمیں اسرائیل کی مدد کا بیان دیا مگر بعد میں کوشش کی کہ اسرائیل کوئی جوابی حملہ نہ کرے۔ ایران کے میزائل حملے سے نہ ہی غزہ کے تباہ حال لوگوںکو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوا اور نہ ہی اسرائیل کو کوئی واضح نقصان لیکن غزہ کے معصوم لوگوں نے اسکا جشن ضرور منایا۔ امریکہ کے مشرق وسطی میں بھی بہت سے فوائد ہیں وہ بھی نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے غزہ ، فلسطین کے نتیجے میں کوئی اور ملک بھی آئے خاص طور پر مشرق وسطی یا مسلمان ملک ، مسلمان ملک بھی امن کے خواہش مند ہیں وہ بھی علاقے کو جنگ کی آگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے اسوقت دنیا معاشی کشمکش کا شکار ہے اور جنگیں معیشت کو مزید تباہ کرنے میںایک اہم عنصر ہے۔ مگر یہ یورپی ممالک، امریکہ اسرائیل کو لگام کیوں نہیں دیتے کہ وہ دہشت گرد اسرائیل کو لگام دیں ،جو تکلیف ایران کے حملے سے اسرائیل کے حامیوں کو پہنچی ہے ، جب بھارت جو اسرائیل کا ساجھے دار اور کسی طور پر بھی مسلما ن دشمنی میں اسرائیل سے کم نہیں گزشتہ کئی دھائیوں سے کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے ہزاروں جانیں شہادت کا رتبہ پاچکی ہیں ، ہزاروں جیلوں میں ہیں ، ہزاروں عورتوں کی بھارتی درندوںنے عصمت لوٹی ہے یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا اور نہ ہی کسی کی آواز اٹھتی ہے صر ف اسلئے کہ بھارت سے انکے معاشی فائدے منسلک ہیں ،انکی آنکھوں پر پٹی اور کان بہرے ہیں کشمیر کے سلسلے میں انہیں اقوام متحدہ کی قرادادیں نظر نہیں آتیں۔سلامتی کونسل کس مرض کی دوا ہے ؟؟؟ وہ کیوںنہ بھارت اور اسرائیل پر
پابندیاں عائد کرتی، سفارتی بائیکاٹ کیوں نہیں کیا جاتا ؟؟ اگر اسرائیل، ایران کا مسئلہ سنگینی اختیار کرتا یا اسرائیل کی بے وقوفی کی وجہ سے سنگینی اختیار کرتا ہے تو کراہ ارض پر ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے قیامت سے پہلے آخری جنگ ہوگی امریکہ یہ بخوبی جانتا ہے اسلئے اس نے ایران کا مخالف ہونے کے باوجود اپنے بچے اسرائیل کو تھپکی دیکر خاموش رہنے کی تلقین کی ہے۔ ادھر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے اور سفارتی تعلقات رکھنے والے اسلامی ممالک کو بھی اسرائیل کا بائیکاٹ اور سفارتی تعلقات کو ختم کرنا چاہئے تاکہ فلسطین کے شہداءکی روح تو خوش ہو۔ کشمیر کے حوالے سے اکثر پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بھارتی ظلم و ستم کے وجہ سے دوست ممالک بھارت کا بائیکاٹ کریں مگر پاکستان کی بات پر کون دھیان دیگا ، اسلئے نہیں کہ بھارتی مارکیٹ اور دنیا کے مفادات ہیں بلکہ اسلئے کوئی دھیان نہیں دیتا کہ پاکستان اور پاکستان کے تاجر خود بھارت سے تجارت کے نہ صرف خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ کربھی رہے ہیں۔ بہ حیثٰت وزیر اعظم عمران ٹرمپ ملاقات کے بعد تو کشمیر کا معاملہ ایک قصہ کہانی بن گیا ہے اس ملاقات کے بعد ہی بھارت نے پیر پھیلائے اور آج وہ کشمیر
پر کسی حد تک قابض ہوچکا ہے ، بھارت اسکی شکل تبدیل کرنے کیلئے ہندو تاجروں کو آباد کررہا ہے 1500نئے تعلیمی ادارے تعلیم دینے کو نہیں بلکہ کشمیر کی تاریخ کو اپنے طور پر پڑھانے کا کام جاری ہے اور اب جبکہ بھارتی انتخابات قریب ہیں مودی سرکار کوئی نہ کوئی ایسی بے وقوفی کا کام کرتی ہے ہندو ووٹرز کا دل جیتنے کیلئے جو خود انکے اپنے گلے پڑ جاتا ہے ، ابھی نندن کا کیس ، پاکستان کے علاقے میںجعلی مقابلے کی تشہیر وغیرہ ایسی مثالیں ہیں جو بھارت کے اپنے گلے پڑ گئیں اب وہ پاکستان کے حوالے سے کوئی اسطرح کا اقدام نہیں کرسکے گا ہماری بہادر عسکری قوت کی وجہ سے اندرونی خلفشار تو وہ ہمیشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے پاکستان میں اب وہ کشمیر کے حوالے سے پھر علاقے میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے بھارت ایک خطرناک حد تک اپنی حدووں سے تجاوز کررہا ہے کیینڈا ہو یا پاکستان اپنے مخالفین کو قتل کرا رہا ہے پھر وہ دہشت گرد نہیں نام نہاد تہذیب یافتہ ممالک کے سامنے۔ اب وہ کشمیری حریت پسند یاسین ملک جو غیر قانونی طور پر انکی قید میں ہے انہیں سزاے موت کا پروگرام بنا رہا ہے جو پھر کشمیر میں تحریک کو بھڑکا کرقتل عام کرنے کا موقع حاصل کرے گا ، دنیا کو نظر نہیں آتا کہ کشمیری عوام کی بھارت سے نفرت اسقدر ہے کہ جب بھارت نے پاکستان سے ایک دن بعد عید منانے کا اعلان کیا تو کشمیر یوں نے عید بھی پاکستان کے ساتھ منائی۔ عالمی تنظیمیں چپ سادھے ہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کو سرگرمی سے کشمیر کے معاملے پرپھر سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے بجائے اسکے کہ وزیر خارجہ بھارت سے تجارت کی نوید دیں۔فلسطین اور ایران کے حالیہ معاملے پر دیکھا ہے کہ شائد فلسطینی چاہتے تھے اگر ایران اسرائیل کےخلاف قدم اٹھائے تو وہ غزہ میں ہونے والے ظلم کا ذکر کرکے اٹھائے نہ کہ اپنے سفارت خانے پر حملے کو یہ تاثر مجھے ملا جب ایک ایرانی صحافی افضل رضاء اور فلسطین کے صحافی جلال الفرا کا انٹرویو دیکھا ، ایرانی صحافی کا کہنا تھا کہ ایران کے حالیہ راکٹوںسے اسرائیل کے ہوائی اڈوں کو نقصان پہنچا ہے وہ راکٹ بے عمل رہے یہ اسرائیل کا پروپگنڈہ ہے جبکہ فلسطنی صحافی دبے الفاظوں میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا ، فلسطینی صحافی کے لہجے میں تلقی تھی۔ پاکستان میں بہت سے ادارے ایسے ہیں جب بھی کہیں مسئلہ پیدا ہوتا ہے مسلمانوںپر دنیا میں تو وہ فنڈز اکھٹا کرنے میں نکل پڑتے ہیں”مصیبت ذدہ “ مسلمانوں کی مدد کے نام پر اور افسوس یہ ہے کہ اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اسکا ذکر خاص طور پر فلسطینی صحافی جلال الفرا نے اپنے انٹرویو میں کیا کہ فلسطین اور غزہ کے نام پر پاکستان میں حال میں کئی چندوں پر زندگی گزارنے والی تنظیموں نے اربوں روپیہ جمع کیاہے جلال افراءکا کہنا تھا غزہ جسکے نام سے پاکستان میں مختلف تنظیموں نے فنڈ اکھٹا کیا اس غزہ کی آبادی دس لاکھ بھی نہیں ہے جنہیں اسرائیل تباہ کررہا ہے ، وہاں کوئی نقد اقدام پہنچنے کا فی الحال کوئی ذریعہ بھی نہیں وہاں کے لئے اربوں روپیہ اکھٹاکیا گیا ، ہمیں پاکستان کی حمائت پر فخر ہے مگر یہ ہمارے نام پر فنڈ اکھٹا کرنے والے ہمارے نام پر پیسہ جمع کرکے مزے کررہے ہیں۔ جلال الفراءکا یہ بیان واقعی ہمیں شرمندہ کرتا ہے ان لوگوں کی وجہ سے جو سڑکوں پر کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پاکستان کے معصوم عوام بڑے پیمانے پر اپنے مصیبت ذدہ مسلمان بھائیوں کیلئے فنڈ دیتے ہیں مگر وہ فنڈ جاتا کہا ں ہے ؟؟؟ ہے کوئی پوچھنے والا ، روکنے والا ؟؟؟؟