ہماری کم عقلی کا ثبوت۔۔

Apr 19, 2024

مروہ خان 

مروہ خان میرانی 
marwahkhan@hotmail.com 

ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ہر مسلمان کا عقیدہ موت پہ ایمان لائے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور ہر ایک مسلمان کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہے کہ ہر ذی روح کو اس روئے زمین سے ایک دن رخصت ہونا ہے۔ کبھی اچانک یا کبھی آہستہ آہستہ حالت مرگ میں رہ کے۔ مگر افسوس اس بات کا جب کسی کی رحلت ہو جائے تو مسلمانوں کا رد عمل ہوتا ہے یہ کیسے ہو گیا؟ یہ نہیں ہو سکتا؟ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ فلاں شخص فلاں بندہ فلاں رشتہ دار اس دنیا سے جا سکتا ہے اور وہ بھی اچانک؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حیرانگی اور ایسا رد عمل کیوں؟ کیا ہم سب اس بات سے لاعلم تھے کہ جو شخص اس دنیا میں آ گیا ہے اس نے واپس بھی چلے جانا ہے۔ کیا رب العالمین نے اپنی کتاب میں اس کو واضح طور پر بارہا نہیں دہرایا کہ ہم سب کو ایک دن لوٹ کر اس کے پاس واپس جانا ہے؟
ہم ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ جس سے لگے اس شخص کی موت کا لمحہ، گھڑی، عمر، وقت، جگہ، طریقہ ہم سب کو معلوم تھا مگر اس کے برعکس واقعہ پیش آگیا۔ نعوذ باللہ! 
موت کا یہ لمحہ کبھی بھی کسی کے اوپر کسی بھی گھر میں کسی بھی وقت نازل ہو سکتا ہے۔ پھر ہماری عقلوں کو سلام کہ یہ جانتے بوجھتے اس حقیقت کو قبول نہیں کر پاتے مرتے دم تک۔ نہ اپنے لیے اور نہ ہی دوسروں کی موت کے لیے۔ موت کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو اتنا پختہ ہونا چاہیے کہ دنیا کی کسی بھی حقیقت سے زیادہ موت کی حقیقت اولین ہے باقی ہر چیز فانی ہے۔ موت ہی ہے جو کہ برحق ہے اور ہونی ہی ہونی ہے۔ ہم لاکھ اسے انکاری ہوں۔ 
اس عقیدے کو جتنا جلد اپنی روح سے آشنا کروا لیں اور ہر وقت لمحے کے لیے ہم تیار رہیں، اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ تو پھر جس لمحہ کسی کی وفات ہو جائے تو منہ سے”اناللہ واناالیہ راجعون“ کے الفاظ ہی نکلیں گے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "صبر تو وہ ہے جو کہ صدمے کے عین وقت پہ کیا جائے"- (ترمذی)
کیونکہ وہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب فرشتے ہمارا رد عمل لکھ رہے ہوتے ہیں، بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ صبر تو خود ہی آجاتا ہے۔ 
بے شک کسی کے چلے جانے کا غم اور اس کی شدت برداشت کرنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں اگر مومن کو اپنے رب تعالی پہ اتنا ہی بھروسہ ہو جتنا اس پہ بھروسہ رکھنے کا حق ہے تو اللہ غیب سے مدد فرماتا ہے اور صبر عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں: 
"تم صبر کرو اور تمہارا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے"- (سورہ نحل: آیت 127)
یعنی صبر قبل از وقت مشق کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ صدمے کے عین وقت پر اللہ سے صبر کی توفیق مانگنا ہی صبر پانے کے برابر ہے۔ یہ مسلمان نہیں جو صبر کرتے ہیں یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہے جو مانگنے پر صبر عطا کرتا ہے۔ 
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
" حقیقی طور پہ جو صبر کا طلبگار ہوتا ہے اللہ تعالی اس کو وہ صبر عطا فرماتا ہے"- (بخاری و مسلم)
صبر کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان کو دکھ، درد، تکلیف نہیں ہونی چاہیے بلکہ انسانی جذبات کی انتہا ہو مگر منہ سے وہ الفاظ نہ نکالے جائیں جو کہ اللہ کی ناراضگی کا باعث بنے۔ 
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ اس پر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ بھی رو رہے ہیں؟! آپ نے فرمایا: اے عوف کے بیٹے! یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپ نے مزید فرمایا: ”آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں“۔ (بخاری)
حضور کریم نے اموات کے وقت واویلا مچانے سینہ کوبی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
”جو شخص رخسار پیٹتا، گریبان چاک کرتا، اور جاہلانہ انداز میں آہ و بکا کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ “ (بخاری)
ایسے وقت پر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا نہ صرف حضور سے محبت کا ثبوت ہوگا بلکہ مستند حدیث میں ہے کہ میت کا سفرِ آخرت آسان ہو جاتا ہے، جب اس کے لواحقین رونا پِیٹنا نہ ڈالیں۔ 
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " میری امت میں جاہلیت (یعنی زمانہ کفر) کی چار چیزیں ہیں کہ لوگ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ ایک اپنے حسب پر فخر کرنا۔ دوسرا ایک دوسرے کے نسب پر طعن کرنا۔ تیسرے تاروں سے بارش کی امید رکھنا اور چوتھے یہ کہ بین کر کے رونا"۔ (بخاری)
اس کے برعکس صبر کرنے والے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی نے کیا ہی خوبصورت تسلی دی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے، اہل دنیا میں سے اس کا کوئی عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اس کے لیے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے“۔ (بخاری)۔
لواحقین کے لیے سوگ تین دن سے زیادہ کا نہیں ہے سوائے بیوہ کے جس کی عدت چار مہینے دس دن تک ہے۔ تین دن کے بعد معمولاتِ زندگی میں واپس آنے کا حکم ہے۔۔ یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن اس کے پیچھے بھی اللہ رب العزت کی حکمت ہے، جب سنت پر حضور کی محبت سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے تو اس عمل میں خیر و برکت ہی حاصل ہوتی ہے چاہے اس وقت ہمارے جذبات ساتھ نہ بھی دے رہے ہوں۔ کیونکہ حضور وہ جانتے جو ہم نہیں جانتے اور اللہ پاک پھر آسانیاں عطا کرنے لگتا ہے۔ سبحان اللہ!
تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہہ دی ہوں۔ اگر آپ دین و سنت سے محبت رکھنے والے ہوں اور اس پر دل و جان سے عمل کرنے والے ہوں۔ زندگی میں کوئی موقع آ جائے جس سے عین وقت پر آپ دینی لحاظ سے ناواقف ہو کہ اچانک فیصلہ کرنا پڑ جائے کیا کرنا چاہیے، تو اللہ تعالیٰ تب بھی آپ سے خود ہی سنت کے مطابق عمل کروا دے گا آپکی نیت کے عوض، آپ کی لاعلمی کے باوجود۔ سبحان اللہ! 
میرے اس موضوع پر نہ لکھنے سے یہ وقت آپ سب کی زندگیوں سے ٹل نہیں سکتا۔ آج نہیں تو کل ہر انسان کو اس گھڑی سے گزرنا ہے چاہے واویلا مچا کے یا پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر و تحمل سے۔ اس پہ اختیار آپ کا اپنا ہوگا۔ یقین جانیے وہ وقت بہت ہی قریب آتا جا رہا ہے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جس کی حقیقت سے ہم سب جانتے بوجھتے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ جب یہ گھڑی ہم پر نازل ہو جائے تو اللہ کی رحمت سے اس دعا کے لئے ہمارے ہوش قائم رہیں کہ اللہ پاک ہمارے پاس صبر نہیں تو ہمیں عطا کر دے بے شک تیرے علاوہ ہمیں کوئی سنبھالنے والا نہیں۔ آمین ثم آمین۔ (جاری ہے)

مزیدخبریں