ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام

باز گشت ....طارق محمود مرزا
tariqmmirza@hotmail.com

 میں چھٹیوں پر پاکستان میں تھا ایک روز ایک دوست سے ملنے اس کے ہاں گیا۔ میں دوست سے محوِ گفتگو تھا کہ اس کا نوجوان بیٹاگھر میں داخل ہوا جو شاید کالج سے لوٹا تھا۔ نوجوان نے بیگ اٹھا کر چارپائی پر پھینکا جوتے اُتار کر ایک طرف پھینکے اور چارپائی پر بیٹھ کر آواز لگائی'' دادی پانی لے آ¶ '' میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیسا رویہ ہے؟ اتنی دیر میں دادی واقعی پانی لے آئی اور پوتے کی بلائیں لینے لگی۔ نوجوان پوتے کو پانی کا گلاس دے کراس نے بیگ اور جوتے اُٹھا کر ایک طرف رکھے۔ تھوڑی دیر میں ماں اس کے آگے کھانا رکھ رہی تھی جب کہ موصوف اس پر ناک بھوں چڑھا رہے تھے۔ اس دوران نوجوان کا باپ میرے پاس بیٹھا یہ منظر ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ معمول کی بات ہو اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اب ایک اور مکالمہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے پاکستان سے ہمارے ایک دوست نے فون کیا جو دفاعی ادارے میں کافی سینیئر عہدے پر فائز تھے انہوں نے فرمایا'' میں اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا بھیجنا چاہتا ہوں آپ سے معلومات درکار ہیں۔ فرمانے لگے'' میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا پڑھائی کے علاوہ وہاں کوئی جاب وغیرہ کرے۔ میرا دل نہیں مانتا کہ وہ محنت مزدوری کرے'' میں نے عرض کیا'' تو پھر اسے ڈگری نہیں مل سکتی'' کہنے لگے'' کیوں ''میں نے کہا '' آسٹریلیا میں دورانِ تعلیم کام کاج کرنا برا نہیں سمجھا جاتا حتی کہ انتہائی امیر والدین کے بچے بھی فالتو وقت میں کام کر کے اپنا جیب خرچ اور بعض اوقات فیسیں خود کماتے ہیں۔ یہ تعلیم و تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے آپ کا بیٹا جاب نہ بھی کرے تو ڈگری لینے کے لیے اسے ورک ایکسپیرنس کی ضرورت پڑے گی، اس کے بغیر ڈگری نہیں ملتی۔'' وہ بولے'' پھر تو مجبوری ہے ورنہ میں اسے کسی کی نوکری کرتے نہیں دیکھ سکتا۔'' شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنا بیٹا پڑھنے کے لیے باہر نہیں بھیجا۔پاکستان میںہمارے ایک قریبی عزیز کے دو نوجوان بیٹے یونیورسٹی میں تعلیم پا رہے تھے ان کی وجہ سے اور گھر کے دیگر اخراجات کی وجہ سے ہمارے دوست کے اوپر خاصا معاشی دبا¶ تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنے بیٹوں سے کہیں کہ وہ فالتو وقت میں کوئی پارٹ ٹائم جاب کر لیں۔انھیں کام کا تجربہ بھی ہو گا اور اضافی آمدنی بھی ہوجائے گی۔''یہاں بھی وہی جواب ملا جو ہمارے آفیسر دوست نے دیا تھا کہ میں بچوں کو کام کرتا نہیں دیکھ سکتا جب تک کہ انہیں کوئی وائٹ کالر جاب نہیں مل جاتی۔ وائٹ کالر جاب تو ڈگری مکمل کرنے کے بعد اور کافی بھاگ دوڑ کے بعد ملنی تھی اس وقت تک گھر کا ایک فرد کما رہا تھا اور جوان بیٹوں سمیت دس افراد بیٹھ کرکھا رہے تھے یہ ایک گھر کی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے۔اب ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے کہ اگر خدانخواستہ گھر کا وہ واحد کمانے والا بھی نہ رہے تو پھر ان سب پر کیا گزرے گی۔ کیونکہ وہ تو اپنے پا¶ں پر کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ ملک کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے ان کو عضو معطل بنا کر ہم نے گھر میں بٹھا رکھا ہے اس پر مستزاد نوجوانوں کو بھی ہاتھ پیر ہلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔ کسی ملک کے نوّے فیصد افراد گھر بیٹھے رہیں تو ملک خوشحالی کی منزل تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ جس نوجوان نے کبھی تنکا نہ توڑا ہوجب حصول ِروزگار یا اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے نکلتا ہے چاہے وہ ایک شہر سے دوسرے شہر ہی کیوں نہ جائے تو وہ ریوڑ سے بچھڑئی سہمی ہوئی بھیڑ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ ہم نے اسے تیراکی سکھائے بغیر زمانے کے سمندر میںدھکیلا ہوتا ہے ۔ یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کو کاہلی، سستی اور دوسروں پر انحصار کرنے کے ذمہ دار والدین اور معاشرہ دونوں ہیں۔ والدین کی سوچ کا اندازہ درج بالا واقعات سے بخوبی ہو جاتا ہے وہ نہیں چاہتے کہ ان کے لختِ جگر کسی قسم کی محنت مزدوری کریں۔ دوران تعلیم کوئی کام کاج کریں۔ حتیٰ کہ وہ انہیں گھر میں کرنے کی بھی ترغیب نہیں دیتے بلکہ انھیں عضوِ معطل بنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے وہ پانی بھی دادی سے منگوا کر پیتے ہیں۔ یہی بچے جب آگے چل کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنا خیال خود رکھ سکیں، اپنے پا¶ں پر کھڑے ہو سکیں اور خود انحصار بن سکیں۔ لہذا وہ دُنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے مشاہدے اور تجربے کی وجہ سے بیان کر رہا ہوں کیونکہ یہاں آسٹریلیا میں میں نے دیکھا ہے کہ دیگر کئی ملکوں سے آنے والے طلبہ پاکستانی طلبہ سے زیادہ فعال اور پُر اعتمادہوتے ہیں اور جلدی اپنے پا¶ں پر کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستانی طلبہ کی اکثریت جسمانی طور پر کمزور، تیز چلنے سے عاری،زیادہ دیر کھڑے رہنے سے معذور اور دماغی طور پر بھی اس بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت نہیں رکھتے۔تیز چلنے اور تادیر کھڑے رہنے کی بات میں نے اس لیے کی ہے کہ یہاں بہت سی جاب ایسی ہیں جہاں آٹھ آٹھ گھنٹے مسلسل کھڑے رہنا پڑتا ہے یا پھر تیز چلنا پڑتا ہے اس کے لیے جس پریکٹس کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں مفقود ہے کیونکہ ہمارے ہاں نکر والی دکان سے دہی بھی لانا ہو تو بائیک استعمال ہوتی ہے۔پیدل چلنے کا رواج ہی نہیں۔ اس کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کی ٹانگوں میں وہ طاقت نہیں ہوتی جو ایسی جاب کی ضرورت ہے۔متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاید اپنے گھر یلوحالات کے پیش نظر خود کو اس بھاگ دوڑ کے لیے رفتہ رفتہ تیار کر لیتے ہیں لیکن بالائی طبقے کے اکثر نوجوان اس تیز رفتار زندگی کے قابل نہیں ہوتے اور سخت پریشان نظر آتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو میں نے یہاں روتے اور بلکتے دیکھا ہے جو ان کی کم اور ان کے والدین اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی غلط روش کی وجہ سے ہے۔ میرے ایک دوست نے ایک پاکستانی نوجوان کو جاب انٹر ویو کے لیے بلایا جو پہلے تو پون گھنٹہ لیٹ آیا جو ہمارے ہاں معمول ہے۔ اس کے بعد انٹرویو کے لیے بیٹھتے ہی کہنے لگا ذرا ملازم سے کہہ کر پانی منگوائیے۔ میرے دوست نے اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کر پانی ڈال کر گلاس اس کے آگے رکھ دیا۔ نوجوان شرمندہ ہو گیا اور بولا کہ مجھے خود پانی ڈال کر پینے کی عادت نہیں ہے کیونکہ ہمارے گھر میں چار چار ملازمائیں ہیں۔ دوست نے اسے آنے جانے کا کرایہ دے کر رُخصت کر دیا۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ ہمارے گھروں میں چار چار ملازمائیں اور چار چار گاڑیاں ہیں لیکن ہمارے ملک میں بین الاقوامی سطح کی جامعات نہیں ہیں کہ تعلیم حاصل کر سکیں اور ایسے ہسپتال نہیں ہیں کہ علاج کرا سکیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ روزگار نہیں ہے۔ گھر وں میں چار چار ملازم ہونے کے باوجود ان تینوں چیزوں کے لیے ہمیں دوسروں کا دست نگر ہونا پڑتا ہے کاش ہمارے لوگ جتنے امیر ہیں ہمارا ملک بھی اتنا ہی امیر ہوتا۔آسٹریلیا میں دوتین سال کے بچوں کو اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے جیسے خود کھانا،لباس خود بدلنا اور اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنا۔جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے ان کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جب وہ ہائی سکول میں پہنچتے ہیں تو اکثر پارٹ ٹائم ملازمت شروع کر دیتے ہیں جو نہ صرف ان کی شخصیت پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے بلکہ ان کے گھر اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کی معاشی بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔ جب یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو ذہنی اور جسمانی طور پر پر اعتماد شہری ہوتے ہیں اور بلا جھجک میدانِ عمل میں قدم رکھتے ہیں۔زندگی کی کامرانی و کامیابی سخت کوشی اور جہدِ مسلسل میں مضمر ہے۔شباب جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا نام ہے جس سے لہو پارہ بنا رہے ۔شاعرِ مشرق نے کیا خوب درسِ عمل دیا ہے:
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں 

ای پیپر دی نیشن