اقبال مند، چاچا مشتاق احمد گوندل کی یادیں 

معزز قارئین ! عاشقِ رسول مولا علیؓ کے حوالے سے مولائی اور مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؓ نے ہر مسلمان کے مرنے پر اس کے پسماندگان کی تسلی و تشفی کے لئے بہت کچھ فرمایا ، صرف ایک شعر پیش خدمت ہے کہ ....
” مرنے والوں کی جبِیں، رَوشن ہے اِس ظلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں!“ 
معزز قارئین! گذشتہ دنوں 2 اپریل کو سرگودھا، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی دوسرے شہروں اور بیرون ملک فرزندان و دخترانِ پاکستان، تحریک پاکستان کے نامور کارکن چاچا مشتاق احمد گوندل کی24 ویں برسی عزّت و احترام سے مناتے رہے ہیں۔ گوندل صاحب کو قرآن پاک تفاسیر اور احادیث نبوی کے مطالعہ سے بے حد دلچسپی تھی اور اردو، ہندی اور فارسی کے نامور شعرا کے کلام سے بھی۔ لیکن آپ کلام اقبال، اردو اور فارسی کے حافظ تھے جس سے احباب بہت متاثر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ”اقبال مند“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ”اقبال مند“ کے معنی ہیں۔ ”نصیب ور، فرخندہ فال، طالع مند، صاحب نصیب، صاحب ِ اقبال، خوش نصیب اور خوش قسمت!“۔ 
1947ءکی ہجرت کے بعد ہمارا خاندان، میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈمیڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں) پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوا تھا جہاں ان کی تحریک پاکستان کے کئی (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان سے ملاقاتیں اور پھر دوستی ہوگئی۔ ان میں جناب مشتاق احمد گوندل بھی شامل تھے، جنہیں مَیں چاچا گوندل کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ فروری 1964ءمیں ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار مقرر کِیا تو میرا ”چاچا گوندل“ صاحب اور تحریک پاکستان کے کئی (گولڈ میڈلسٹ) کارکنوں سے تعلق (بلکہ) دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ 
”جانگلی آباد کار ، مہاجر، پنجابی!“
 ”چاچا مشتاق احمد گوندل ضلع سرگودھا کے ان مقامی اصحاب میں شامل تھے کہ ”جنہوں نے 1947ءسے پہلے اور بعد میں ہجرت کے بعد سرگودھا میں آباد ہونے والے مہاجرین کی آباد کاری میں کردار ادا کِیا۔ ان کی اہلیہ محترمہ صغریٰ خانم بھی ان کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی رہیں۔ چاچا مشتاق احمد گوندل کو "Urdu Speaking"۔ مہاجروں سے بھی محبت تھی لیکن پنجابی مہاجروں سے نسبتاً زیادہ!، آپ کہا کرتے تھے کہ ”پنجاب کے قدیم باشندوں کو جانگلی کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جو 19 ویں صدی کے اوائل میں پنجاب میں آباد ہوئے انہیں ”آباد کار“ اور 1947ءمیں ہجرت کے بعد مہاجر پنجابی“۔ اِسی لئے تین طبقوں کے Speaking" "Punjabi خواتین و حضرات کے لہجے مختلف ہیں! “۔ چاچا جی کہا کرتے تھے کہ ”ہمارے صوفی شاعروں نے پنجابی کے ہر لہجے میں پنجابیوں کی ”فیض رسانی“ کی ہے۔
” اقبال کا ہم نام!“ 
ایک دِن تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مرید احمد صاحب کے گھر مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی مجلس گرم تھی جس میں چاچا مشتاق احمد گوندل نے اہلِ مجلس کو بتایا کہ ”حضرت سیّد محمد نظام الدّین اولیاءکے ایک خدا رسیدہ مرید ِ خاص کا نام خواجہ محمد اقبال تھا۔ پھر اپنی ایک نظم ” برگِ گل“ میں علاّمہ اقبال نے حضرت سیّد محمد نظام الدّین اولیاءسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ....
”محوِ اظہارِ تمنائے دلِ نا کام ہوں! 
لاج رکھ لینا کہ میں، اقبال کا ہم نام ہوں!“
”جدوجہد ِمادرِ ملّت!“ 
2 جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں اور جنابِ مجید نظامی نے آپ کو ”مادرِ ملّت“ کا خطاب دِیا۔ تحریک پاکستان میں ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے نامور کارکن اور 1938ءمیں ”پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن“ کے صدر مولانا عبدالستار خان نیازی نے ضلع سرگودھا سمیت پنجاب کے کئی اضلاع کے ”مادرِ ملّت“ کے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے پہلی بار یہ کہا کہ ”مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح سانحہ کربلا کے بعد اسوہ حضرت زینب پر عمل کر رہی ہیں۔ اسکے بعد مادرِ ملّت کے ہر جلسہ عام میں ہر مقرر نے یہی کہا۔ جناب مشتاق احمد گوندل نے بھی۔ چاچا جی! نے مجھے کئی بار بتایا کہ ”جنابِ حمید نظامی سے تو میری بہت عقیدت اور نیاز مندی تھی لیکن برادرِ محترم مجید نظامی سے دوستی!“۔
” فرزندانِ چاچا گوندل!“ 
28 مارچ 2021ءسے پہلے چاچا مشتاق احمد گوندل کے تین فرزند تھے۔ اشفاق احمد گوندل، ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل اور آفاق احمد گوندل۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ"Pakistan Atomic Energy Commission" کے سابق پرنسپل انجینئر، ڈاکٹراشتیاق احمد گوندل کا 28 مارچ کو 68 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ یوں تو میرا چاچا مشتاق احمد گوندل کے فرزند ِ اوّل سے بہت تعلق تھا لیکن دوستی تب ہوئی، جب انہوں نے 1975ءمیں "C.S.S" کا امتحان پاس کرنے کے بعد ”پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ“ میں شرکت کی۔ اِس سے پہلے مَیں نے یکم نومبر 1971ءمیں لاہور سے اپنا ہفت روزہ ”پنجاب“ اور 11 جولائی 1973ءکو روزنامہ ”سیاست“ جاری کِیا۔ 
”اشفاق احمد گوندل!“
 یوں تو چاچا مشتاق احمد گوندل اپنے تینوں بیٹوں سے بہت محبت کرتے تھے لیکن فرزند ِ اوّل اشفاق احمد گوندل سے بہت زیادہ۔ وہ فرزند ِ اوّل اشفاق احمد گوندل کو ”سعادت مند بیٹا“ کہا کرتے تھے۔ کئی سال پہلے اشفاق احمد گوندل وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مختلف صدور، وزرائے اعظم اور اپنے اعلیٰ افسران اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مالکان اور کارکنان میں مطابقت بنانے میں اہم کردار ادا کِیا ہے۔ ان کی اہلیہ، فریدہ اشفاق نے بھی (جو میری چھوٹی بہنوں کی طرح ہیں) شعبہ صحافت کی خواتین سے بہت ہی اچھا سلوک کر کے ” نیک نامی“ حاصل کی ہے۔ اشفاق احمد گوندل صاحب کے دونوں بیٹے احمد ولید گوندل اور احمد نویدگوندل بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں!۔ 
”چاچا گوندل کے پَیرو!“ 
معزز قارئین! برادرِ عزیز و محترم اشفاق احمد گوندل فی الحقیقت اپنے والدِ محترم، میرے چاچا مشتاق احمد گوندل کے پَیرو (مرید، تابع، مقتدی، پیرو ی کرنے والے) ہیں۔ اپنے والد ِ محترم کی طرح اردو، ہندی، پنجابی، عربی ، فارسی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں اور ”انسان دوست“ تو بہت ہی زیادہ!۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...