کیا کبھی آپ نے پاکستان کے کسی ایسے دفتر کے بارے میں سنا ہے جس پر کام کا بوجھ بڑھنے لگے تو اسے خوشی ہوتی ہو؟ شاید نہیں۔
لیکن آج بھی پاکستان میں ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو دن رات جتن کر رہا ہے کہ لوگ اسے اپنے مسائل اور شکایات سے آگاہ کریں تاکہ وہ ان کا ازالہ کر سکے۔ عدالتی نوعیت کے اختیارات کے حامل اس اہم دفتر کا نام ہے.... وفاقی ٹیکس محتسب۔ ایف ٹی او، ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی جارحانہ آگاہی مہم کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان کی شکایات کے ازالے کی تعداد دو برسوں میں چار گنا ہو چکی ہے۔ سن 2000ءسے 2021ءتک سالانہ ڈھائی ہزار کے قریب ٹیکس دہندگان کو ریلیف مل رہا تھا لیکن رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں درخواستوں کی تعداد تین ہزار ہو چکی ہے۔ قبل ازیں ایک ماہ سو، دو سو درخواستیں ملتی تھیں وہاں اب تین ماہ میں ماضی کے ایک برس کے برابر کام ہو چکا ہے۔ جنوری 2022ءمیں 346، 2023 میں 558 اور 2024ءمیں 661 افراد نے اپنی شکایات میں بتایا کہ ان کے ریفنڈ یا کسٹم پر کلیرنس کی درخواستیں برس ہا برس سے زیر التواءہیں۔ روری 2022ء میں شکایات کی تعداد 1009 اور فروری 2024ءمیں 1069 ہو گئی۔ ایف ٹی او کا ادارہ ٹیکس چوری کی خبروں پر از خود نوٹس بھی لے سکتا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں 50 از خود نوٹسز سے لوگوں کو ریلیف ملا۔
آپ مزید حیران اس وقت ہوں گے جب یہ معلوم ہو گا کہ امیر ترین ادارے اور غریب ترین لوگ سبھی ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں یعنی انصاف لے رہے ہیں۔ چار ہزار شکایت کنندگان میں دودھ فروش بھی شامل ہے اور ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی بھی۔ جبکہ درجنوں شکایات بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف دائر کی گئیں۔ ان میں چند ہزاروپے ماہانہ کمانے والی گھریلو ملازمائیں بھی شامل تھیں اور ٹیکسٹائل ملیں بھی۔ اور، جن 50 از خود نوٹسز کا ذکر کیا، ان میں میڈیکل کالجز کے ٹیکس مسائل کی جانچ پڑتال بھی شامل تھی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شکایات کرنے کا کیا فائدہ؟ الٹا نقصان ہوا ہو گا۔ محکمہ پیچھے پڑ گیا ہوگا۔ جی نہیں؟ ایف ٹی او کی سفارشات یعنی احکامات کو محکمہ نہایت سنجیدگی سے لیتا ہے۔بجلی کے بلوں کو ہی لے لیجئے۔ درجنوں صارفین نے وفاقی ٹیکس محتسب سے شکایت کی تھی کہ ان کے بلوں پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سمیت متعدد دیگر ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ یہ شکایات چار طرح کی تھیں۔ اول، جن کے بل 25 ہزار روپے سے کم تھے۔ ان پر انکم ٹیکس نافذ نہیں تھا لیکن سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز نافذ تھے۔ دوئم، 25 ہزار روپے سے کم کے بعض بلوں پر بھی انکم ٹیکس لیا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے اپنے مکان میں کوئی دکان بھی کھول رکھی تھی لیکن کاروبار بند ہونے کے باوجود کمرشل میٹر کے مطابق انکم ٹیکس کاٹا جا رہاتھا۔ سوئم، ان کے بل 25 ہزار روپے سے زائد تھے لیکن سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہونے کے باعث انہیںٹیکس میں چھوٹ ملنا چاہئے تھی۔ چہارم، ایک شکایت کنندہ بیرونِ ملک مقیم تھا مگر لاہور میں اس کے مکان کے میٹر پر انکم ٹیکس لیا جا رہا تھا۔ کچھ شکایت کنندگان تو بے روزگار تھے۔ اندرون ملک مقیم ایک بے روزگار شخص نے لکھا کہ اوور بلنگ کے ذریعے اسے اضافی بل بھیجا گیا۔ یہ تمام شکایات سیکرٹری ریونیو ڈویڑن کو برائے تبصرہ بھیجی گئیں۔ محکمے نے لکھا کہ شکایت کنندگان نان فائلر ہیں۔ مزید دلیل دی کہ ریلیف کے لئے شکایت کنندگان بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے رجوع کریں یا حکومت سے اپیل کریں۔ اور یہ کہ، ان ٹیکسوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایف بی ا?ر تو ودہولڈنگ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہاہے۔
وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ، پورے ملک میں الیکٹرسٹی ڈیوٹی وصول کی جا رہی ہے۔ لیسکو نے اس لیوی کی وضاحت اپنے خط نمبر 7667-68/TA)(/LESCO میں کی ہے۔ مغربی پاکستان فنانس ایکٹ 1964 کی شق 13 کے تحت الیکٹرسٹی ڈیوٹی نافذ ہے۔ اسے اب پنجاب فنانس ایکٹ 1964ءکہا جاتا ہے۔ جس کے تحت صوبوں کو بجلی کے یونٹوں پر لیوی وصول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ چاروں صوبوں کیلئے یہ ڈیوٹی وصول کی جا رہی ہے۔ الیکڑیسٹی ڈیوٹی کی جانچ پڑتال کے دوران مزید نئے پہلو سامنے آئے۔ مثلاً، اسکے تحت جمع شدہ رقم مقررہ مدت کے اندر صوبے کو ادا نہیں کی جا رہی۔ جیسا کہ، کے الیکٹرک نے سندھ حکومت کے 21 ارب روپے روک رکھے تھے۔ پنجاب انرجی ڈیپارٹمنٹ نے ہزاروں جعلی اور غیر فعال میٹروں کی موجودگی کا بھی انکشاف کیا۔ پھر یہ ڈیوٹی بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے استعمال کی جانی تھی لیکن صوبائی حکومت اس ڈیوٹی کو اپنے دفاتر کے بلوں کی ادائیگی کےلئے استعمال کر رہی ہیں۔ آئیسکو ،اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں رہنے والے صارفین سے بھی صوبائی لیوی وصول کر رہی ہے جبکہ آئیسکو اسلام آباد کے صارفین سے یہ ڈیوٹی وصول کرنے کی مجاز نہیں۔ یہ معاملہ ایف ٹی او آرڈیننس 2000ء کی شق 2(3) کے تحت بدانتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایف بی آر، لیسکو اور پنجاب حکومت کے نمائندوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنانے کی سفارش کی جو بجلی کے بلوں پر عائد تمام ٹیکسوں کا جائزہ لے کر عوام کو ریلیف دینے کا بندوست کرے گی۔ ایف بی آرنے مذکورہ فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو ریپریزنٹیشن بھیجی جسے صدر نے مسترد کرتے ہوئے کمیٹی بنانے کی سفارش منظور کرلی۔ صدرِ مملکت کے فیصلے کے بعد ایف بی آر کے اعلیٰ افسر ، آصف رسول (چیف سیلز ٹیکس) نے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ کو کمیٹی بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ ایف ٹی او نے اس پر مزید کارروائی کی رپورٹ 22 اپریل 2024ءکو طلب کی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کمیٹی کے قیام کیلئے واپڈا اور پنجاب حکومت سے نام مانگ لئے گئے ہیں۔ کمیٹی کے قیام کا سب سے زیادہ فائدہ صوبائی حکومتوں کو ہو گا جن کے فنڈز انہیں تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بہت تاخیر سے ملتے ہیں۔ دوسرا فائدہ عوام کو ہو گا کہ یہ فنڈز اب بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال ہوں گے نہ کہ بلوں کی ادائیگی پر۔ کمیٹی بلوں پر عائد انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی واپسی کا بھی طریقہ ڈھونڈے گی۔ اس سے اسلام آباد کے شہریوں سے الیکڑسٹی ڈیوٹی کی وصولی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ دیکھا میری درخواست کا اثر۔
وفاقی ٹیکس محتسب کے عوام کو ریلیف کے اقدامات
Apr 19, 2024