ڈاکٹر سبیل اکرام
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس ، ایمان کی روح ، ملت اسلامیہ کی وحدت اور قوت کی بنیاد ہے۔عقیدہ ختم نبوت پر اسلام کی عمارت استوار ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ کو۔۔۔۔اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول مانا جائے اور اس بات پر پختہ یقین اور ایمان رکھا جائے کہ آپ ؐ کے بعد کوئی نبی اور رسولؐ نہیں ہے۔ عقیدہ ختم نبوت فروعی مسئلہ نہیں بلکہ اس کاتعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے یعنی ہر مسلمان شعوری طور پر یہ بات سمجھے اور اس پرایمان رکھے کہ نبی مکرم رحمت عالمؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا۔اسی طرح اس بات پر بھی ایمان رکھا جائے کہ خاتم النبین کا دین اور شریعت تمام گزشتہ شریعتوں اورادیان کی ناسخ ہے۔اگرکوئی شخص رسول مقبولؐ کے بعدنبوت کادعویٰ کرے تو امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایسا شخص جھوٹا ، کذاب، دجال اورکافرہے۔ مسلیمہ کذا ب نے نبوت کا دعوی کیا تو امت نے اسے جھوٹا اور کذاب ہی نہیں گردانا بلکہ امیرالمومنین خلفیۃ المسلمین سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس کے خلاف جہادکے لیے ایک لشکر جرار روانہ کیا۔ اس معرکہ میں بارہ سو صحابہ کرام خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں بڑی تعداد حفاظ کرام کی تھی جبکہ مسیلمہ کذاب کے 28ہزار ساتھی واصل جہنم ہوئے جن میں مسیلمہ کذاب خود بھی شامل تھا۔اگر چہ صحابہ کرام میں جام شہادت نوش کرنیوالوں میں 200حفاظ کرام بھی تھے لیکن صدیق اکبر ؓ نے قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کو یہ بتادیا کہ مسلمان قیامت کی دیواروں تک عقیدہ ختم نبوت کی پہرے داری ،پاسداری اور چوکیداری خون جگر سے کرتے رہیں گے۔
1857ء میں مسلمانوں نے انگریز کے خلاف جہاد شروع کیا جو بوجوہ ناکام ہوگیا پھر سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید نے جہادی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے جانثاروں اور وفاداروں نے بارہادفعہ انگریز فوجوں کو شکست فاش سے دوچار کیا ۔ اسلامیان برصغیر کی غیرت ایمانی کو دیکھ کر حکومت برطانیہ کی سرپرستی میں مرزاقادیانی ملعون کو تراشا گیا،جس نے مسیلمہ کذاب کی جانشینی اور اسود عنسی کی معنوی ذریت کا ثبوت دیتے ہوئے نبی اور رسول ہونے کا دعوی کیا۔اور آخر کار ایک صاحب شریعت نبی ہونے کا دعوی کربیٹھا اور اعلان کیا کہ وہ خود رسول ہے ( نعوذباللہ )۔
مرزا ملعون قادیانی اور اس کی ذریت کو چونکہ انگریز کی سرپرستی حاصل تھی اس لیے وہ کھل کر اسلام اور پیغمبر اسلام پر کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے لگا تاہم مسلمانوں نے علمی میدان میں مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کا خوب مقابلہ کیا۔اسی طرح جملہ مسالک کے علما جن میں ہزاروں نام شامل ہیں سب نے رسول مقبول ؐکے ساتھ محبت کا حق ادا کرتے ہوئے مرزا قادیانی کا تعاقب جاری رکھا۔
قیام پاکستان کے بعد جب بعض وجوہات کی بنا پر قادیانیت نے زیادہ ہی پرپرزے نکالنے شروع کردیے توعلما ئے اور شیخ عظام نے بھی اس کا تعاقب شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ تاریخی دن آیا جب قادیانی اور قادیانیوں کا لاہوری فرقہ غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ قادیانیت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں جن علما ، زعما اور شخصیات نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ان میں میرے نانا شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر سرفہرست تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی 1974ء میں تحریک چلنے کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ اس پہلے بھی علامہ احسان الہی ظہیر 60ء کی دہائی میں جب مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے گئے تو انھوں نے مشاہدہ کیا کہ عالمِ عرب اور بالخصوص آپ کے اساتذہ کرام فتنہ قادیانیت کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے، لہٰذا انھوںنے دورِ طالب علمی میں اپنی پہلی معرکہ الآراء تصنیف ’’القادیانیہ‘‘ عربی زبان میں تالیف فرمائی۔ اساتذہ کرام کو کتاب کا مسودہ دکھایا گیا توسب نے اسے بے حد پسند کیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مسلمان مبلغ جنھیں سعودی عرب نے دین ِ حنیف کی تبلیغ اور مرزائیت کے تعاقب واستیصال کے لیے افریقی ملک نائیجریا بھیجا تھا اس نے وہاں جا کر ایک خط میرے نانا کے نام لکھا اس خط میں وہ مبلغ یوں رقمطراز ہیں ’’آپ کی عربی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ’’ القادیانیت ‘‘۔۔۔قادیانیوں کے لیے ضرب کلیمی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس روحانی لگاؤ کو دیکھ کر مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا: ’’تمھیں مبارک ہو! ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری میں خاتم النبیین ؐ کے رب نے تمہاری کاوش کو پسند فرمایا ہے۔‘‘اس کے بعد جب آپ تکمیل تعلیم کے بعد پاکستان آگئے تو انھوں نے اپنی تحریروں ، تقریروں اور خطبات جمعہ میں قادیانیت کی گوشمالی کا سلسلہ شروع کیا۔’’ ماہنامہ ترجمان الحدیث ‘‘ کی ابتدا کی تو اس کے اکثر اداریے قادیانیت کے بارے میں ہوتے ۔ 1974ء میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی تو انھوں نے مولانا یوسف بنوری ، آغا شورش کاشمیری ، مولانا مفتی محمود ، نواب زادہ نصراللہ خان اور اس وقت کے بڑے بڑے علما اور خطبا کے ساتھ پورے ملک کے طوفانی دورے کیے۔ خاص کر اس تحریک کا آخری جلسہ جو1974ء کو 6ستمبر کی رات بادشاہی مسجد میں منعقد ہوا۔ میرے نانا نے خدادا صلاحیتوں اور گرجدار آواز کے ساتھ جس طرح جلسے کا ماحول بنایا۔اس پر مولانا یوسف بنوری نے میرے نانا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا ’’ بیٹا ٰ ٰ ! تم اس تحریک کے سالار ہو اور چوکیدار ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تحریک ختم نبوت کے شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے اور ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین !