علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
اللہ تعالیٰ نے آغاز فطرت میں سب سے پہلے حضرت آدم کو ا خلاق سے متصف فرمایااورحضرت آدم علیہ السلام سے انبیاء اور رسولو ں نے اسے صفت کو تر کہ میں پایا ہے یہاں تک کہ سیدالانبیا حضرت محمدؐ تک پہنچااور آپ سے آپ کی امت کو ملا ہے۔ اسی طرح تمام برے اخلاق تقسیم کے وقت شیطان کو دیے گئے اوراس سے متکبروںاورنا فر مانی کرنے والوں تک پہنچے اور یہی شیطان کی امت کہلائے ۔تو جو کوئی شریعت کی پیروی میں زیادہ مضبوط ہو گا اُس کی خصلت بھی اچھی ہو گی ۔ کیونکہ اچھی خصلت والا بارگاہ خدا وندی میں زیادہ عزیز ہو تا ہے ۔نیک اخلاق کی حقیقت احکامِ خدا وندی کی بجا آوری اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنا ہے ۔ حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ملاقات اصحاب کے ساتھ اگر ایک دن میں سو مرتبہ بھی ہوتی ،تو آپ ؐ ہر بار سبھی لوگوں کو سلام کرتے تھے۔آپ ؐ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ حضور اکرم ؐ کی عمر میں کبھی اس کا موقعہ نہ آیا کہ رات تک آپ ؐ کے پاس ایک درہم یا ایک دینار باقی بچا ہو۔ اگر اتفاق سے کچھ رہ جاتا تو جب تک کسی کو دے نہ دیتے آپ ؐ حجرے میں تشریف نہ لے جاتے۔
حضور اکرم ؐ سے نقل ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا’ جو تجھ سے کٹ جانا چاہے اس سے مل اور جو تجھ پر ظلم کرے اُس کو معاف کر دے اور جو تجھ کو کچھ نہ دے تو اس کو دے ‘‘۔حضور اکرم ؐ کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا کہ لوگوں کو اللہ کی راہ پر لانے کیلئے حکمت کے ساتھ نرم الفاظ میں نصیحت فرمائیں ،جو بہت اچھے ہوں ۔جب موسیٰ ؑکو ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کی تبلیغ کیلئے بھیجا گیا تو اُن سے کہا گیا ۔فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَیِّنًا۔(اس سے نرم گفتگو میں باتیں کرنا)۔حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس برس تک حضرت سرورِ عالم ؐ کی خدمت کی ۔ اتنے دنوں میں کسی کام پر مجھ کو نہیں کہا کہ تونے کیوں کیا؟ یا برا کیا۔جب میں اچھا کام کرتا تو آپؐ دعا دیتے تھے اور جب کوئی کام خراب ہو جاتا تھا تو فرماتے تھے ۔وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرً مَّقْدُوْرًا۔(اللہ کا حکم اس کی قدرت میں پوشیدہ تھا )۔وہ کہتے ہیں کہ آپ ؐ اپنے گھوڑے کا دانہ گھاس خود دیتے ۔اپنے ہاتھ سے کپڑے سیتے اور پیوند لگاتے ،گھر کے کاموں میں خادموں کے ساتھ شریک ہو جاتے ،جوتوں کے بند ٹوٹ جاتے تو اپنے دستِ مبارک سے ٹانکتے ،خود جھاڑو دیتے اور چراغ جلاتے تھے ۔اگر کسی کو آپؐ کوئی کام کرنے کے لئے کہتے اور وہ اپنی حماقت اور نادانی کی وجہ سے نہ کرتا اور دوسرے لوگ اس پر لعن طعن کرتے اور تکلیف پہنچاتے توآپ گوارانہ فرماتے اور اس کی اجازت نہیں دیتے ۔حضور اکرم ؐ کی تمام عمر گالی گلوچ، طعنہ و تشنیع کے الفاظ زبان پر نہیں آئے ۔ آپ کا چہرۂ مبارک ہمیشہ ہنستا ہوا ہوتا اور اگر کوئی مسلمان آپ ؐ کے پاس پہنچ جاتا تو آپ ہی سلام کیلئے سبقت فرماتے اور اصحاب کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ کوئی امتیاز نہ ہوتا تھا ۔یہاں تک کہ اجنبی کو پہچاننے میں شبہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم ؐ کون ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کے نام نہ لیتے بلکہ ان کی کنیت وغیرہ سے پکارتے تھے ۔اگر کسی کی کنیت نہ ہوتی تو اس کی ایک کنیت آپ خود رکھ دیتے اور اگر صحابہ کرامؓ میں سے یا کوئی دوسرا شخص آپ کو پکارتا تو آہ لبیک فرمایا کرتے تھے ۔اگر بچوں کی منڈلی کی طرف سے گزرتے تو اُن کو سلام کرتے اور مسلمانوں کا عیب ہمیشہ چھپایا کرتے تھے ۔بال بچوں اور غلاموں کا حق برابری کے ساتھ جس طرح شریعت میں ہے لحاظ رکھتے اور دین کی تبلیغ کرنے میں کفار کی گالیاں ،لعن طعن اور مارتک برداشت کرتے ،کبھی کسی سائل کو محروم واپس نہ کرتے ۔اگر کچھ موجود ہوتا تو دیتے ورنہ فرماتے اگر خدا نے چاہا تو ہم دیں گے ۔اپنے کام کیلئے آپ کسی پر غصہ نہ کرتے اور دین حق کے اعلان میں خوف سستی اور تغافل نہ فرماتے ۔ پریشانی اور بیماری کی حالت میں اپنے دوستوں کی مدد کرتے ۔ آپ ؐ کا غلام بیمار پڑجاتا تو اُس کی جگہ آپ خود اس کا کام انجام دیتے تھے ۔ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے اور جو کپڑا جن کا پہننا مباح ہے جب کبھی مل جاتا تھا پہن لیتے تھے ۔کبھی کمبل ،کبھی یمن کی چادر، کبھی کھدر اور کبھی سفید کپڑا پہنا کرتے تھے ۔ اور جو سواری مل جاتی تھی اس پر سوار ہوتے تھے ۔کبھی گھوڑا ،کبھی اونٹ ،کبھی گدھا ،کبھی پیدل، کبھی ننگے پائوں، کبھی بغیر کسی چادر کے اور کبھی بغیر پگڑی اور ٹوپی کے راستہ چلتے تھے۔
حضرت امام حسن اور امام حسین ؓ کے لئے آپ سواری بن جاتے اور وہ دونوں لاڈلے آپ ؐ کی پشتِ مبارک پر سوار ہو جاتے ۔حضرت ابو سعید خدری ؓ نے روایت کی ہے اور حدیثوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔اس طرح کے اخلاق آپؐ میں تھے جو بیان کیے گئے اور اسی طرح کے بے شمار اخلاق آپ سے مروی ہیں ۔اگر آپ ؐ کے وہ معجزے بھی نہ ہوتے تو یہ اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ ہی آپ کے برحق و برگزیدہ اصول ہونے کے ثبوت میں کافی ہیں ۔چنانچہ کتنے دشمن اور انکار کرنے والے ایسے گذرے ہیں کہ محض آپ ؐ کو دیکھ کر ہی پکار اُٹھے تھے کہ ۔لَیْسَ ھٰذَا وَجْہُ الْکَذَّابِیْنَ۔ (یہ جھوٹ بولنے والوں کا چہرہ نہیں ہے ۔)اور فوراًایمان لے آتے تھے اور اسلام قبول کر لیتے تھے ،بغیر کسی معجزہ اور دلیل کے یہی وہ اخلاق ہیں جو علم والوں نے طریقت کے راستے میں اختیار کیے ہیں ۔ہر حالت میں یہ لوگ شریعت کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے اخلاق کو سنتِ نبوی ؐ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ۔جب تک کوئی شخص شریعت میں محقق نہ ہو گا طریقت سے اُس کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا اور اس اخلاق کی جڑ معرفت کی پاکیزگی اور صفائی تک نہیں پہنچ سکتا ۔اس راستے کے چلنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بصیرت سے اس درجے پر پہنچنے کی کوشش کرے اور انہیں اخلاق نبوی ؐ سے آراستہ ہو جائے اور جو کچھ خدا کی بخشش کی وجہ سے حاصل ہو جائے اُسے محفوظ کرے ۔۔الحمد للہ ہم مسلمان اور مومن ہیں۔لیکن موجودہ دور میں ہمارے اخلاق ناقابل برداشت حد تک ترش اور تند ہو گئے ہیں۔چغلی ،غیبت ،جھوٹ، گالی گلوچ اور عیب جوئی ہمارا شغل بن چکا ہے ۔ہمیں اخلاقِ عظیم کے حامل رسول کریم ؐ کے امتی ہونے کے ناطے سے ہر ممکن حد تک اپنے اخلاق میں سنتِ نبویؐ کی جھلک کو لانا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین