اسلام آباد (عترت جعفری) صدر پاکستان آصف زرداری نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کہ مشترکہ اجلاس میں ساتویں مرتبہ خطاب میں حسب توقع ملک کو درپیش سیاسی، معاشی سفارتی چیلنجز کا ذکر کیا، اور پارلیمنٹ کو پائیدار ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے سیاسی مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا۔ نو منتخب صدر مملکت جب ملکی مسائل کے حل کے لیے بامعنی مذاکرات اور پارلیمانی اتفاق رائے کی وکالت کر رہے تھے تو فلور آف دی ہاؤس کا منظر اس کی برعکس تصویر پیش کر رہا تھا، حکومت وقت سے شکایات کا ہونا اور ان کے حل کے لیے اقتدار میں موجود نمائندوں کو مجبور کرنا اپوزیشن کا ایک فرض بھی ہے، مگر 1988 کے بعد سے اب تک اپوزیشن میں کوئی بھی جماعت رہی ہو اس کے کردار اور اپنے غصے کے اظہار کے طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدر مملکت کا خطاب حکومت وقت کی سمت کا تعین کرتا ہے، یہی وجہ تھی کہ صدر مملکت کے خطاب میں معیشت، سیاست، دہشت گردی، اور اس کے نقصانات، ممالک کے ساتھ تعلقات، ان تعلقات کو نقصان پہنچ جانے کی کوششوں، اصلاحات کی ضرورت، گڈ گورننس، روزگار، مہنگائی میں کمی، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی سنگین صورتحال، تعلیم، ملک کے لیے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیوں کی تحسین، چین، سعودی عرب اور دوسرے دوست ممالک کی مدد کا ذکر موجود تھا۔ صدر مملکت اپنی اہلیہ اور سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور اپنے سابقہ دور صدارت کا ذکر نہیں بھولے اور اس دور کے اپنے فیصلوں کو تاریخی قرار دیا۔ صدر مملکت نے جن مسائل یا چیلنجز کی نشاندہی کی ہے، یہ نئے نہیں ہے، ملک کی گزری ہوئی دہائیوں کی کہانی ہے جس کو دہرایا جاتا ہے، جس کا سبق یہ ہے ذمہ دار حکومت، ذمہ دار اپوزیشن بیک وقت ضرورت ہے۔ اب یہ کیسے ہو گا اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے پا رہا۔ فلور آف ہاؤس پر احتجاج ہوا، اپوزیشن اس کا حق رکھتی ہے، ان کی طرف سے گو گو کے نعرے بھی لگے، تصاویر پر مبنی بینر بھی لہر ائے گئے، رہائی کا مطالبہ، وغیرہ بھی ہوئے مگر ہاتھ سے لکھے ہوئے صرف ایک پوسٹر پر مہنگائی کے خاتمہ کا مطالبہ تھا۔ غربت کے خاتمے، معاشی اصلاحات، سیاسی اصلاحات، الیکشن کے نظام کی اصلاحات کے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔ صدر مملکت کے خطاب پر اب سینٹ اور قومی اسمبلی بحث کرے گی ممکنہ طور پر اپوزیشن ارکان صدر کے خطاب کے بحث پہ اپنی تجاویز دیں گے۔ صدر کے خطاب کے دوران ایسے لگا جیسے حکومتی بینچز کے تمام ارکان موجود نہیں تھے کیونکہ ایوان کی عقبی نشستیں سے خالی تھیں۔ شلوار قمیض میں ملبوس پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نو منتخب رکن قومی اسمبلی اصفہ بھٹو زرداری توجہ کا مرکز رہی۔ ارکان کی بڑی تعداد ان کے ساتھ تصاویر بنانے میں مشغول رہی۔ تلاوت کلام پاک کے لیے قاری صاحب نے سورہ عصر کو منتخب کیا، جب قومی ترانہ پڑھا جا رہا تھا تو اس دوران بھی بعض ارکان نے اپنی نعرہ بازی کو جاری رکھا تاہم پھر کسی رکن کے مشورے پر انہیں چپ کرایا گیا۔ نعت رسول مقبول پڑھی گئی۔ وزیراعظم جب اندر داخل ہوئے تو ہلکے پھلکے انداز میں ڈیسک بجے۔ وزیراعظم بلال بھٹو زرداری آصفہ بھٹو زرداری سے ملتے ہوئے اور ارکان سے علیک سلیک کرنے کے لیے ان کی نشستوں تک گئے، ایوان میں باجے بجنے کی آواز بھی آئی۔
صدر بے نظیر، سابق دور صدارت کا ذکر کرنا نہ بھولے، سیاسی مفاہمت پر زور دیا
Apr 19, 2024