اسلام آباد: 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججوں سے تجاویز مانگ لی گئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے آفس نے تمام ججوں سے پیر تک تجاویز مانگ لیں. ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ اور ویسٹ اسلام آباد سے بھی تجاویز طلب کی گئی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججوں کو پیر تک تجاویز بھجوانے کی ہدایت کرتے ہوئے ججوں کو سپریم کورٹ کے حکم نامے کی کاپی ارسال کی گئی۔ تجاویز کے بعد فل کورٹ بلانے یا نہ بلانے کا فیصلہ ہوگا۔26مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے عدالتی کیسز میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا .جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خط لکھنےکا مقصد سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی لینا ہے. یہ معاملہ جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کے بعد اٹھا ہے، شوکت صدیقی کیس میں ثابت ہوا فیض حمید عدالتی امور میں مداخلت کر رہے تھے جبکہ خط میں 2023 میں جج کے کمرے سے کیمرہ نکلنے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔خط کے متن کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف اور وفاقی حکومت نے جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف کیس کیا تھا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں۔ انہوں نے خود بھی اپنے اوپر عائد لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی درخواست کی تھی۔’عدالتی امور اور عدلیہ کی کارروائی میں مداخلت کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے.عدالتی امور میں اس طرح کی مداخلت کو دھمکی کے طور پرلیتے ہیں، ایس جے سی کی گائیڈ لائنز میں اس طرح کی مداخلت کےخلاف کوئی رہنمائی نہیں ملتی، کیا ججز کو دھمکیاں، دباؤ میں لانا یا بلیک میل کرنا حکومتی پالیسی ہے۔‘ججز نے خط میں لکھا تھا کہ کیا سیاسی معاملات میں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونا حکومتی پالیسی ہے، ججزپر دباؤ، سیاسی معاملات میں فیصلوں پر اثراندازی کی تحقیقات ہونی چاہیے، بانی پی ٹی آئی کیخلاف کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے والے 2 ججوں پر دباؤ ڈالا گیا۔خط میں کہا گیا تھا کہ ایجنسیوں کی مداخلت، ججز پر اثر اندازی سراسر توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے. آرٹیکل 204، توہین عدالت آرڈیننس کے تحت فوری کارروائی شروع کی جائے۔
بعدازاں یکم اپریل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان خود تھے جبکہ اس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل رہے۔