وطنِ عزیز میں سیاست دانوں پر تو مقدمے بنتے ہی آئے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سابقہ آرمی چیف پر کوئی مقدمہ بنا ہے۔ یہ ایف آئی آر اسلام آباد میں جنرل مشرف پر 60 سے زیادہ سینئر ترین جج صاحبان کو بمعہ اہل و عیال‘ کئی مہینوں کیلئے نظر بند کرنے کیخلاف درج کی گئی ہے۔
اس ایف آئی آر کی وجہ سے آپ کو گرفتار اور پابندِ سلاسل کیا جا سکتا ہے اور یا پھر آپ وطن سے دور رہنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
بیرسٹر اعتزاز احسن کیمطابق پارلیمانی قرارداد کی اس سلسلے میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت حکومت کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔
اسکے علاوہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلہ کی روشنی میں کوئی بھی شہری وفاقی حکومت کو درخواست دے سکتا ہے کہ وہ جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کیخلاف مقدمہ قائم کرے اور اگر حکومت کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہ ہو یا وہ اس سلسلے میں نامناسب تاخیر کی مرتکب ہو تو وہ عدالت کو استدعا کر سکتا ہے کہ وہ حکومت کو مقدمہ قائم کرنے کا حکم جاری کرے۔
مسلم لیگ (ق) نے سیاسی جماعتوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں مشرف پر مقدمہ دائر کروانے کیلئے قرارداد لائیں۔ ان سے ایسا کرنے کی توقع کی جا سکتی تھی کیونکہ انہوں نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ڈکٹیٹر کو پارلیمنٹ میں اکثریت مہیا کی تھی بلکہ یہاں تک بھی کہا تھا کہ وہ انہیں دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کرائیں گے۔
راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو لوگ ایک جمہوری طریقے سے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں وہ کیسے ایک ڈکٹیٹر کو اپنے اوپر مسلط کر سکتے ہیں اور اسے بار بار اپنے اوپر مسلط کروانے کا عندیہ دے سکتے ہیں۔
گائے فاکس نامی ایک شخص نے 5 نومبر 1605ء میں برطانوی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اڑانے کی سازش کی لیکن اس کا منصوبہ 4 نومبر کو پکڑا گیا اور اسے اور اسکے ساتھیوں کو غداری کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی۔
اس دن سے ہر سال 5 نومبر کا دن بطور یادگار منایا جاتا ہے‘ جس میں پارلیمنٹ کے محفوظ رہنے کی خوشی منائی جاتی ہے اور گائے فاکس کے پُتلے جلائے جاتے ہیں۔ جو کچھ جنرل مشرف نے 12 / اکتوبر 1999ء اور 3 نومبر 2007ء میں کیا‘ وہ اس سے کچھ کم غداری نہ تھی۔
ہاں انہوں نے بارود استعمال نہ کیا لیکن اقتدار پر قبضہ‘ اسلحہ اور بارود کی طاقت کے ذریعہ ہی کیا۔ اگر کسی کو یہ سیدھی سی بات سمجھ نہ آئے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ انتہائی سیدھا سادہ ہونا چاہیے۔ آپکے آئین کو دو مرتبہ منسوخ کرنے کے ثبوت کے طور پر آپکی 12 اکتوبر 1999ء اور 3 نومبر 2007 کی آخرِ شب کی ٹیلی ویژن پر کی ہوئی تقریریں ہی کافی ہونی چاہئیں۔
اگر مزید ثبوت کی ضرورت سمجھی جائے تو آپکے جاری کردہ مارشل لا کے درجنوں ضابطوں کا ریکارڈ بہت ہے۔ جب کوئی فرد طاقت کے نشے میں دُھت ہوتا ہے تو اُسے یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ کل کلاں وہ قانون کی گرفت میں آ سکتا ہے۔
جب مسٹر ذوالفقار علی بھٹو پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ درج ہوا تو کیا وہ سوچ سکتے تھے کہ انہیں ایک ایف آئی آر کی وجہ سے پھانسی پر چڑھایا جائیگا؟
مسز فوزیہ وہاب نے فرمایا ہے کہ :
مشرف کے غیر آئینی اقدامات کا ثبوت لایا جائے‘ تب حکومت ایکشن لے گی۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ نے جنرل مشرف کی مندرجہ بالا تقریریں دیکھی اور سُنی نہ ہوں؟ اور اگر نہیں دیکھیں تو آپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی کس قسم کی سیکرٹری اطلاعات ہیں؟
اگر حکومت ذرا غور کرے تو اسے مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ یہ معاملہ خود ہی رفع دفع ہو جائے گا تو راقم کی ناقص رائے میں:
ایں خیال است و محال است و جنوں
اگر حکومت نے اس مسئلے کو نامناسب حد تک معرض التوا میں ڈالا تو ان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کچھ اور نیچے چلی جائیگی۔
یہ جو فرحت اللہ بابر صاحب نے فرمایا ہے کہ مشرف کی آئندہ زمانوں کیلئے مذمت ہونی چاہیے تو یہ کوئی بچوں کا کھیل تو ہے نہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد لاؤ تو حکومت اقدام کریگی‘ یعنی :
نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی
دنیا کے صفحے پر کیا کبھی کسی کام کے لئے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو شرط بنایا گیا ہے۔ دراصل افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح پارٹی کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔
ایک دفعہ اس سے پہلے بھی پارٹی نے ایسا کیا تھا‘ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کو وعدہ کے مطابق بحال نہ کیا گیا۔ جب بعد از خرابیِ بسیار آپ کو بحال کرنا پڑا تو اس کا Credit یار لوگ لے گئے۔
تو قصہ مختصر‘ جنرل مشرف پر مقدمہ درج کرنا اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانا مستقبل کے طالع آزماؤں کی حوصلہ شکنی کیلئے ضروری ہے۔ آخر میں مشرف صاحب کا ایک قول ضرور یاد رہے گا کہ
’’بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
انسان کیا تدبیر کرتا ہے اور قدرت کو کیا منظور ہوتا ہے اسی میں سمجھنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔
اس ایف آئی آر کی وجہ سے آپ کو گرفتار اور پابندِ سلاسل کیا جا سکتا ہے اور یا پھر آپ وطن سے دور رہنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
بیرسٹر اعتزاز احسن کیمطابق پارلیمانی قرارداد کی اس سلسلے میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت حکومت کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔
اسکے علاوہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلہ کی روشنی میں کوئی بھی شہری وفاقی حکومت کو درخواست دے سکتا ہے کہ وہ جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کیخلاف مقدمہ قائم کرے اور اگر حکومت کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہ ہو یا وہ اس سلسلے میں نامناسب تاخیر کی مرتکب ہو تو وہ عدالت کو استدعا کر سکتا ہے کہ وہ حکومت کو مقدمہ قائم کرنے کا حکم جاری کرے۔
مسلم لیگ (ق) نے سیاسی جماعتوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں مشرف پر مقدمہ دائر کروانے کیلئے قرارداد لائیں۔ ان سے ایسا کرنے کی توقع کی جا سکتی تھی کیونکہ انہوں نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ڈکٹیٹر کو پارلیمنٹ میں اکثریت مہیا کی تھی بلکہ یہاں تک بھی کہا تھا کہ وہ انہیں دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کرائیں گے۔
راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو لوگ ایک جمہوری طریقے سے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں وہ کیسے ایک ڈکٹیٹر کو اپنے اوپر مسلط کر سکتے ہیں اور اسے بار بار اپنے اوپر مسلط کروانے کا عندیہ دے سکتے ہیں۔
گائے فاکس نامی ایک شخص نے 5 نومبر 1605ء میں برطانوی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اڑانے کی سازش کی لیکن اس کا منصوبہ 4 نومبر کو پکڑا گیا اور اسے اور اسکے ساتھیوں کو غداری کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی۔
اس دن سے ہر سال 5 نومبر کا دن بطور یادگار منایا جاتا ہے‘ جس میں پارلیمنٹ کے محفوظ رہنے کی خوشی منائی جاتی ہے اور گائے فاکس کے پُتلے جلائے جاتے ہیں۔ جو کچھ جنرل مشرف نے 12 / اکتوبر 1999ء اور 3 نومبر 2007ء میں کیا‘ وہ اس سے کچھ کم غداری نہ تھی۔
ہاں انہوں نے بارود استعمال نہ کیا لیکن اقتدار پر قبضہ‘ اسلحہ اور بارود کی طاقت کے ذریعہ ہی کیا۔ اگر کسی کو یہ سیدھی سی بات سمجھ نہ آئے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ انتہائی سیدھا سادہ ہونا چاہیے۔ آپکے آئین کو دو مرتبہ منسوخ کرنے کے ثبوت کے طور پر آپکی 12 اکتوبر 1999ء اور 3 نومبر 2007 کی آخرِ شب کی ٹیلی ویژن پر کی ہوئی تقریریں ہی کافی ہونی چاہئیں۔
اگر مزید ثبوت کی ضرورت سمجھی جائے تو آپکے جاری کردہ مارشل لا کے درجنوں ضابطوں کا ریکارڈ بہت ہے۔ جب کوئی فرد طاقت کے نشے میں دُھت ہوتا ہے تو اُسے یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ کل کلاں وہ قانون کی گرفت میں آ سکتا ہے۔
جب مسٹر ذوالفقار علی بھٹو پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ درج ہوا تو کیا وہ سوچ سکتے تھے کہ انہیں ایک ایف آئی آر کی وجہ سے پھانسی پر چڑھایا جائیگا؟
مسز فوزیہ وہاب نے فرمایا ہے کہ :
مشرف کے غیر آئینی اقدامات کا ثبوت لایا جائے‘ تب حکومت ایکشن لے گی۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ نے جنرل مشرف کی مندرجہ بالا تقریریں دیکھی اور سُنی نہ ہوں؟ اور اگر نہیں دیکھیں تو آپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی کس قسم کی سیکرٹری اطلاعات ہیں؟
اگر حکومت ذرا غور کرے تو اسے مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ یہ معاملہ خود ہی رفع دفع ہو جائے گا تو راقم کی ناقص رائے میں:
ایں خیال است و محال است و جنوں
اگر حکومت نے اس مسئلے کو نامناسب حد تک معرض التوا میں ڈالا تو ان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کچھ اور نیچے چلی جائیگی۔
یہ جو فرحت اللہ بابر صاحب نے فرمایا ہے کہ مشرف کی آئندہ زمانوں کیلئے مذمت ہونی چاہیے تو یہ کوئی بچوں کا کھیل تو ہے نہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد لاؤ تو حکومت اقدام کریگی‘ یعنی :
نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی
دنیا کے صفحے پر کیا کبھی کسی کام کے لئے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو شرط بنایا گیا ہے۔ دراصل افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح پارٹی کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔
ایک دفعہ اس سے پہلے بھی پارٹی نے ایسا کیا تھا‘ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کو وعدہ کے مطابق بحال نہ کیا گیا۔ جب بعد از خرابیِ بسیار آپ کو بحال کرنا پڑا تو اس کا Credit یار لوگ لے گئے۔
تو قصہ مختصر‘ جنرل مشرف پر مقدمہ درج کرنا اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانا مستقبل کے طالع آزماؤں کی حوصلہ شکنی کیلئے ضروری ہے۔ آخر میں مشرف صاحب کا ایک قول ضرور یاد رہے گا کہ
’’بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
انسان کیا تدبیر کرتا ہے اور قدرت کو کیا منظور ہوتا ہے اسی میں سمجھنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔