جمعتہ المبارک 17 اگست 2012 ءکے اخبارات سے یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان کے بعض احباب بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر بعض تقریبات میں شرکت کے بعد دلوں میں حسین یادیں لیے اور دماغوں میں سہانے خواب سجائے ایک روز قبل یعنی جمعرات کو لاہور واپس پہنچ چکے ہیں۔ بعض دوستوں نے بھارت میں قیام کے دوران مختلف شہروں اور خصوصاً جالندھر اور امرتسر میں میزبانوں کی طرف سے مہمان نوازی اور محبت، الفت اور عوامی مقبولیت کی ایک ایسی دلفریب تصویر پیش کی ہے جس سے زمین پر تازہ ترین حالات کے پس منظر میں یہ گمان گزرتا یقیناً بے وجہ نہیں ہو سکتا کہ
ہم تک کب ان کی بزم میں پہنچا تھا جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
راقم کسی کے سہانے خوابوں میں خلل اندازی نہیں ڈالنا چاہتا۔ بھارت کی یاترا کرنے والے پاکستانی احباب جن میں میڈیا کے ایک مخصوص طبقے کے بعض بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ کچھ تو جادو ہو گا جس کے باعث اٹاری سے بھی آگے واہگہ بارڈر کی طرف تیس چالیس ہزار بھارتی باشندے پاکستانی مہمانوں کی والہانہ محبت میں عقیدت کے پھول پیش کرنے اور پاکستان کے ایک معروف صحافی کو ”بابائے انسانیت“ کا القاب پیش کرتے ہوئے یہ میلہ نما بھارتی ہجوم اس خواہش کا اظہار کر رہا تھا کہ وہ سب کے سب ”لاہور میں پھجے کے پائے کا ناشتہ کرنا چاہتے ہیں۔“ بھارت کے دلدادہ ہمارے پاکستانی اہل قلم اور صحافی دانشوروں نے صرف بھارتی تمناﺅں کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی خواہشات کا اہل پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے یوں اظہار کیا ”اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان والے یہاں (بھارت) آ کر امرتسر میں پٹھورے کھائیں۔“
راقم نہایت ادب سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی اپنی خواہش کے اظہار کرنے اور اپنی ذات تک محدود سہانے خواب دیکھنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن خدارا اس کے دائرہ کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے پوری قوم کی ترجمانی کرنے سے اجتناب کریں تو بہتر ہے کیونکہ دوسروں پر اپنی خواہشات ٹھونسنا اور دوسروں کی زبردستی بلا اجازت ترجمانی کرنا انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ آپ کو بھارت کی خوراک، طور طریقہ‘ رسم و رواج‘ انداز حکمرانی‘ کشمیر پر غیر قانونی و غیر آئینی تسلط‘ کراچی میں دہشت گردی اور علیحدگی کے رجحانات کی پرورش‘ بلوچستان میں بغاوت کے شعلوں کو ہَوا دینا‘ پختونخواہ میں سرحدی گاندھی کی تعلیمات اور سیاسی سوچ کی پرورش کے خاص انداز‘ فاٹا میں عدم استحکام کی تحریکوں کی ہرممکن امداد اور آخر میں افغانستان کے اندر پاکستان سے دونوں ممالک سے دیرینہ تعلقات میں رخنہ اندازی کو ہَوا دینا۔ الغرض اسلامی جمہوریہ پاکستان کو 1971ءمیں دولخت کے بعد اب موجودہ پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں اور تخریب کاری کو فروغ دیکر پاکستان کی ریاست کو ایک ناکام اور فیل ریاست میں تبدیل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرنا اگر چند افراد ایسی بھارتی منصوبہ بندی کو قبول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تو سو بسم اللہ یہ ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ بھارت کے سہانے خوابوں میں شرکت کریں اور کھل کر کریں۔ لیکن میڈیا میں طرح طرح کے لبادے اوڑھ کر بھارت کے سہانے خواب کو پاکستان کے عوام کی اکثریت کے خواب کا نام دیکر پاکستان کی خود مختاری آزادی اور ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کے سہانے خواب کو دیگر ایسے ناموں سے ملوث کرنے کی کوشش نہ کریں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو 17 اگست جمعتہ المبارک کے ایک لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ میں صفحہ اول کی سرخیوں سے عیاں ہے۔
کیا پاکستان کے عوام مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوئے بغیر امرتسر جا کر پٹھوڑے کھانے کے گلپھرے بلانے کا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں!