عنبرین فاطمہ
موسم کے خوشگوار ہوتے ہی شادیوں کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔عید الفطر کے بعد شادی بیاہ کی تقریبات کا سلسلہ ایک بار پھر عروج پر ہے اوراس سلسلے میں عروسی ملبوسات کی تیاری بھی زور و شور سے جاری ہے۔اس وقت مارکیٹ میں منفرد ڈیزائنز کے ایک سے بڑھ کر ایک عروسی ملبوسات دستیاب ہیں خریداری کےلئے جائیں تو چوائس کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔پاکستان میں عروسی جوڑے میں بھی اب نت نئے تجربات کئے جارہے ہیں حتیٰ کہ رنگوں کے انتخاب میں بھی جدت پسندی سے کام لیا جا رہا ہے۔پاکستان میں تیار ہونے والا عروسی جوڑا پوری دنیا میں مقبول ہے۔پاکستان میں عروسی جوڑے کو جدت بخشنے میں ہمارے ڈریس ڈیزائنرز کی کافی محنت شامل ہے انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج کو تبدیل کیا ہے۔اس وقت پاکستان میں ”عروسی جوڑے“ کی تیاری میں کس قسم کے تجربات کئے جا رہے ہیں،کونسا رنگ اور کام فیشن میں مقبول ہے اس حوالے سے ہم نے ملک کے نامور ڈریس ڈیزائنرز سے بات کی۔حاجرہ حیات نے کہا کہ آج کل لانگ گاﺅنز ،شرارے اور غرارے فیشن میں ہیں جہاں تک فیبرک کی بات ہے تو میں بنارسی اور شفون کو مکس کرکے کرسٹل اور زری ورک سے عروسی جوڑا تیار کر رہی ہوں۔میں نے ہمیشہ مختلف رنگوں کے امتزاج کو اہمیت دی ہے۔کامیار روکنی نے کہا کہ لہنگے،غرارے/فرشی غرارے اور شرارے ہمارے روایتی برائیڈل ڈریسز ہیں ان کا فیشن میں ایک مرتبہ پھر سے مقبول ہونا اچھی بات ہے۔جامہ وار،ٹشو ،اورگینزا پر روایتی ایمبرائیڈری اور مختلف قسم کے موٹیوز عروسی جوڑے کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ ہم جو عروسی جوڑا تیار کر رہے ہیں اس میں ہر طرح کے موٹیوز کااستعمال کر رہے ہیں۔کلچر کو پرموٹ کرنے کے لئے موٹیوزکا استعمال ایک بہترین ذریعہ ہے۔لال اور گہرا پنک رنگ بھی پسند کیا جا رہا ہے۔جہاں تک عروسی جوڑوں پر کام کی بات ہے تو ایک طرح کا کام نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ فرق قسم کے کام کئے جا رہے ہیں۔جیسے کڑھائی،ریشم ،زردوزی،ستارا،موتی،تلہ،دبکہ و دیگر نوعیت کے کام قابل ذکر ہیں۔پاکستانی برائیڈل وئیر پوری دنیا میںپسند کئے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کامیار نے کہا کہ ہماری کڑھائی اور کٹس بہت ہی نفیس ہوتے ہیں بھارت میں بھی یہ کام ہوتا ہے لیکن وہ لوگ ہمارے کام جیسا نفیس کام نہیں کر پاتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کام جتنا مرضی اچھا ہو لیکن بہتری کی گنجائش تو ہر وقت رہتی ہے۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم صدیوں سے جو کپڑے عروسی جوڑے کےلئے استعمال کرتے آرہے ہیں ان میں تھوڑی تبدیلی لیکر آئیں میں یہ نہیں کہتا کہ جامہ وار یا دیگر فیبرکس کو ختم کر دیں لیکن ان کے ساتھ تجربات کئے جانے چاہیں،پیٹرن میں تبدیلی لیکر آئیں۔اس کے علاوہ فنشنگ اور کٹس میں بھی جدت ہونی چاہیے اپنی امیجینیشن کو استعمال کریں۔ صائم علی دادا نے کہا کہ مشرقی اور مغربی امتزاج سے تیار کردہ لہنگے خواتین میں خاصے مقبول ہیں۔فش ٹیل اس کی بڑی مثال ہے ۔بہت سارے لوگ مختلف رنگوں کے ساتھ جہاں تجربات کر رہے ہیں وہاں ہیوی ،شمر اور سٹونز کا کام بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ہمارے برائیڈل وئیر کو پوری دنیا میںپسند کئے جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کلچر ہمارے برائیڈل وئیر میں نظر آتا ہے۔ہمسایہ ملک میں برائیڈل وئیر کی خاصیت ان کا رنگوں کے ساتھ کھیلنا ہے باقی کپڑے اور کام میں ہم ان سے کافی آگے ہیں ۔معروف ماڈل و اداکارہ نادیہ حسین جو کہ متعدد شوز میں نامور ڈیزائنرز کے برائیڈل وئیرپہن چکی ہیں ان سے ہم نے پاکستانی برائیڈل وئیرکے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کے برائیڈل وئیر کو میں پیور پاکستانی برائیڈل وئیر نہیں کہوں گی بلکہ یہ برصغیر کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔مغل دور میںلہنگے ،غرارے شرارے اورپشواس ہیوی کام کے ساتھ استعمال کی جاتی تھی،اوراسی پیٹرن پر ہم بھی اپنے برائیڈل وئیر بناتے آرہے ہیں۔اس دور میں گوٹے اور دبکے کاکام بہت پسند کیا جاتا تھا۔پاکستانی ڈیزائنرز نے مغل دور میں پہنے جانے والے ڈریسز میں کٹس اور کام کے حوالے سے تجربات ضرور کئے ہیں جس کو پوری دنیا میں پسندکیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں آج لہنگے،غرارے اور شرارے کی قمیضیں لمبی پہنی جا رہی ہیں جبکہ بھارت میں چھوٹی قمیضوں کا فیشن مقبول ہے۔ان کے اور ہمارے برائیڈل ڈریسز میں زیادہ فرق نہیں ہے بس ان کا موٹیوز کااستعمال اور دبکے کا طریقہ مختلف ہے وہ لوگ ہیوی کام کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔جہاں تک ہمارے ڈیزائنرز کی بات ہے توہمارے تمام ڈیزائنرز کے کام کا انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔جیسے نومی انصاری کلر سکیم کے ساتھ کھیلنے کا ماہر ہے۔رضوان بیگ کے کلرز کلاسک ہوتے ہیں جبکہ ماہین خان کے برائیڈل ڈریسز دیکھیں تو ان میں زیادہ ہیوی کام نہیں ہوتا ہے وہ ہیوی کام کی بجائے کٹس پر زیادہ زور دیتی ہیں اور شفون و سلک کا استعمال بخوبی کرنا جانتی ہیں۔نادیہ حسین نے کہا کہ جہاں تک میری پسند کی بات ہے تو مجھے ہلکے برائیڈل ڈریس اچھے نہیں لگتے۔برائیڈل ڈریس پر ہیوی کام نہ ہو تو مجھے لگتا ہے کہ یہ برائیڈل ڈریس ہی نہیں ہے۔لہنگے ،غرارے اور شرارے کی قمیض چھوٹی ہو ،سلیوز لیس ہو یا لمبی ہو لیکن اس پر کام ہیوی ہونا چاہیے۔عائشہ عمر نے کہا کہ برائیڈل وئیر کی ڈیزائنگ اورکام ہی اس کی اصل خوبصورتی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے برائیڈل وئیر میں ہمیشہ سے ہی بہت دلچسپی رہی ہے شوز کے دوران برائیڈل وئیر پہننے کا جب بھی اتفاق ہوا بہت اچھا لگا۔مجھے لہنگے پر خوبصورت کام بہت دلکش لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شادیوں کا سیزن عروج پر........ روایتی برائیڈل ڈریسز پھر لوٹ آئے
Aug 19, 2013