ہنی مون کا ڈھونگ

کیا پاکستانی عوام حکمرانوں کی منکوحہ ہیں، کیا الیکشن میں حکومت کو منتخب کیا جاتا ہے یا یہ سوئمبر کا تہوار ہے کہ اس میں دلہا، دلہن کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہ ہنی مون درمیان میں کہاں سے آن ٹپکا۔
جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو یہ رٹ لگائی جاتی ہے کہ حکومت کو ہنی مون مدت پوری کرنے دو۔ یعنی اس ہنی مون کے دوران نہ تو دلہن نے کچھ کھانا پینا ہے، نہ پہننا ہے، نہ اس کی دیگر ضروریات کی کفالت کی کسی کو فکر لاحق ہے۔
11 مئی کو الیکشن ہوئے، اسی رات میاں نواز شریف نے وکٹری تقریر کر دی، اس سے بھی بہت پہلے انہوںنے حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ شروع کر دی تھی، پالیسیاں بنائی جا رہی تھیں، ٹاسک فورسز تشکیل دی جا رہی تھیں، انرجی اجلاس طلب کئے جا رہے تھے، یہ آنیاں جانیاں دیکھنے کے لائق تھیں، ادھر حکومت ملی، ادھر سب پالیسیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور ہنی مون کا آغاز ہو گیا، وزیراعظم نے چھ دن چین میں گزار دیئے اور چھ دن سعودی عرب میں۔ ملک سیلا ب میں گھرا ہوا تھا، دھماکوں پہ دھماکے ہو رہے تھے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاشیں گر رہی تھیں، زیارت کی پر سکون وادی میں قائد کی یادوں کو شعلوں کی نذر کر دیا گیا، اورہنی مون تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔
اس کالم کی اشاعت کے روز الیکشن میں فتح کی تقریر کے بعد سے پورے سو دن گزر چکے ہیں۔ یہ حساب آپ کر لیں کہ وزیراعظم نے حلف کس دن اٹھایا اور ہنی مون کے کتنے دن اور باقی ہیں، اور سالے سالیوں کو دلہا میاں کے ناز نخرے اور کتنے دن اٹھانے ہیں۔
پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے حقائق نامہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہنی مون کے دوران اب تک 358 بم دھماکے ہوئے جن میں 449 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک ہزار دو سو پچیس افراد شدید زخمی ہوئے۔
ابھی تک ایسی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی کہ ہنی مون کے دوران ریلوے کو کتنے حادثے پیش آئے، کتنی گاڑیوں پر راکٹ برسائے گئے اور وزیر ریلوے کی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے کتنے جوابی راکٹ داغے گئے۔ پی آئی اے کی کتنی پروازیں لڑکھڑائیں، کتنی تاخیر کا شکار ہوئیں اور کتنی منسوخ ہو گئیں۔ گھروں، دکانوں، دفتروں، کارخانوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کتنا اندھیرا چھایا رہا۔ کتنی بیواﺅں کو اپنے بچے بہلانے کے لئے سوکھی باسی روٹی کے ٹکڑے پانی میںڈبو کر ان کے منہ میںڈالنے پڑے۔
میاں نواز شریف ڈرون حملوں کے خلاف تھے، مگر یہ حملے جاری رہے،عمران خان بھی ڈرون حملوں کے دشمن نمبر ایک تھے، ان کی جماعت صوبہ خیبر پی کے میں حکمران ہے اور ظاہر ہے وہ بھی ہنی مون پر ہے ، اس لئے اس سے بھی حساب نہیں مانگا جا سکتا کہ ڈرون حملے کیسے اور کب رکیں گے۔ صوبہ بلوچستان میں ایک کٹڑ قوم پرست کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا ہے، یہ صاحب تو اس قدر ہنی مون میں مگن ہیں کہ اپنے دارالحکومت میںخونریزی کے موقع پر زخمیوں کی عیادت کے لئے بھی موجود نہیں ہوتے۔ جنازوں میں شرکت کے لئے تو زمرد خان جیسا احمق دل سینے میں ہونا ضروری ہے۔ صوبہ خیبر پی کے، کا دلہا یوم آزادی کی تقریب کو چھوڑ کر اقوام متحدہ کے بڑے صاحب کو سلام کرنے اسلام آباد جا پہنچا۔ سندھ کے ضعیف العمر دولہا میاں کا کلہ مضبوط ہے، انہیں بھی ہنی مون منانے کا حق حاصل ہے، گو ان کی حکومتی عمر کسی طور پر شریف برادران سے کم نہیں۔
یہ میںنے کیا دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ قائم علی شاہ کو بھٹو نے وفاقی وزیر صنعت بنایا، 1988ءمیں وہ پہلی مرتبہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنے، ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف نے حکومتی اننگز 1981 میں جنرل جیلانی کے وزیر خزانہ کے طور پر شروع کی، وہ 85 میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے، تب سے اب تک وہ اقتدار اور اختیار کے مالک ہیں لیکن ان کے بہی خواہوںکا خیال ہے کہ میاں صاحب ابھی حکومت میں نئے ہیں حالانکہ الیکشن میں میاں صاحبان کے بہی خواہ یہ سلوگن فروخت کر رہے تھے کہ غیر تجربہ کار عمران خان کے مقابلے میں تجربہ کار شریف برادران کو ووٹ دیں۔اور ایسا ہی ہوا مگر فتح کے اعلان کے بعد پتہ چلا کہ تجربہ تو صرف سلوگن کی حد تک تھا، وزیراعظم نے خود کہا کہ وہ مسائل کو سمجھ پائیں گے تو کوئی تقریر کریں گے۔ اور اب اس تقریر کی نوبت بھی آیا ہی چاہتی ہے، گویا یہ یقین کر لیا جائے کہ وزیراعظم مسائل کی تہہ تک پہنچ ہی گئے، ان کا حل کیا ہے، اس تقریر سے وہ بھی آشکارا ہو جائے گا۔
بھارت کے معاملے میں وزیراعظم نے سمجھنے سمجھانے کے اصول پر عمل کی ضرورت محسوس نہیں کی، حکومت میں آنے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ بھارت کے دورے پر جائیں گے خواہ کوئی بلائے یا نہ بلائے، اب لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اپنی انتہا پر ہے، پورا بھارت پاکستان کے خلاف نفرت کا الاﺅ بھڑکا رہا ہے اور خدانخواستہ پاکستان مردہ باد کے نعرے بھارتی پارلیمنٹ اور ہمارے ہائی کمیشن کے سامنے لگ رہے ہیں مگر میاں صاحب کو اگلے ماہ نیویارک میں، من موہن سنگھ سے ملاقات کا شوق چرایا ہے ۔اس بھارت نے کوئی ایک ظلم ڈھایا ہو تو اس کا تذکرہ کیا جائے، ان دنوں اس نے اپنے تمام ڈیموں کے دروازے کھول دیئے ہیں اور پنجاب کا بڑا حصہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ تریموں ہیڈ ورکس کو بچانے کے لئے ہمیں حفاظتی بند توڑنا پڑا ہے جس نے درجنوں دیہات میں تباہی مچا دی ہے۔ یہ بھارت کی آبی جارحیت کا دوسرا رخ ہے اور حافظ محمد سعید اس کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد۔ آگے سندھ ہے اور بدین ہے جہاں ابھی پچھلے سیلابوں کا پانی خشک نہیں ہوا۔
حکومتی رٹ 15 اگست کو ٹیسٹ ہو چکی ہے، ایک مسلح جنونی شخص نے ملکی نظام کو مفلوج بنا کے رکھ دیا۔ پتہ چلا کہ حکومت نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ ہلال امتیاز کے اعلیٰ ترین سول اعزاز کے مستحق عرفان صدیقی نے اپنے تازہ کالم میںسوال اٹھایا ہے کہ کیا ایک حواس باختہ شخص کی طرح حکومت خود بھی حواس باختہ نہیں ہو گئی۔ میرے خیال میں یہ سوال بے بنیاد ہے، حکومت حواس باختہ نہیں ہوئی، یہ ہنی مون پرہے، اس عرصے میں اس کے سو گناہ بھی معاف۔ اور ہنی مون کا یہ عرصہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت کا دل چاہے۔
حکومت ہنی مون انجوائے کر رہی ہے، لوگ بھی حکومتی ہنی مون کو انجوئے کرنا سیکھیں۔ نائن الیون میں تین ہزار امریکی مارے گئے، وہ حواس باختہ ہو گئے، ان کے صدر نے کہا کہ دل نہ چھوڑو، موج میلہ کرو، گھروں سے نکلو، پارکوں کا رخ کرو، ساحل سمندر پر پکنک مناﺅ۔ پاکستانی عوام بھی حکومت کو مستی کرنے کا موقع دیں اور خود بھی اپنے غموں میںمست رہیں۔ حکومت کرتے کرتے حکومت کو کچھ تو حکومتی تجربہ ہو ہی جائے گا اور پھر مسائل کا حل بھی نکل آئے گا، اک ذرا صبر!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...