لاہور (محسن گورایہ سے) پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے انتخابات میں پارٹی کی بد ترین شکست کے بعد ایک بار پھر سر اٹھانے اور پارٹی کو فعال بنانے کی پلاننگ شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی میں نئی روح پھونکنے کے لئے انکی امیدوں کا مرکز و محور کوئی اور نہیں صرف اور صرف آصف علی زرداری ہیں۔ کارکنوں نے ان کی صدارت کے دن گننے شروع کر دیئے ہیں۔ ان کے پاس انتظار کےلئے اب ستمبر کا مہینہ ہے جب آصف علی زرداری صدر نہیں خالصتاً چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی شکل میں پارٹی کارکنوں کے درمیان موجود ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن کی نظر میں منظور وٹو، انور سیف اللہ، رحمان ملک جیسے انکے لیڈر تھے نہ ہیں۔ کارکنوں کی نظر میں ایسے لوگ پیپلز پارٹی کے کارکن پر مسلط کئے گئے تھے۔ یہ کارکنوں کے ساتھ نہیں حکومت کے ساتھ چلے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی اقتدار کے پانچ سال پارٹی کے وفاداروں کو پارٹی سے دور رکھا گیا۔ عام پارٹی کارکن کی نظر میں آصف زرداری ہی ایسے شخص ہیں جو پارٹی کو نئے سرے سے منظم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پارٹی کارکن ان کے ساتھ چل سکتا ہے۔ آصف زرداری نے پانچ سالہ دور حکومت میں میڈیا، دوسری جماعتوں اور کارکنوں کی کڑوی کسیلی باتیں سنیں اور جمہوری عمل بھی آگے بڑھایا۔ جب وہ خالصتاََ پارٹی کی قیادت سنبھال کر میدان میں نکلیں گے تو پارٹی کارکن لبیک کہتے ہوئے ان کے ساتھ نکل پڑیں گے۔ پارٹی کارکنوں کے مطابق اقتدار کے دوران صدر زرداری ان کے ساتھ ویسا رابطہ نہیں رکھ سکے جیسا کارکن چاہتے تھے مگر کارکن اس بات پر بھی خوش تھے کہ حکومت تو پیپلز پارٹی کی تھی جس میں ہر کارکن فائدہ نہیں اٹھا سکا مگر لاکھوں کی تعداد میں نوکریاں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ملی بھی تھیں۔ کارکنوں کو امید ہے حالات تبدیل ہوں گے اور پیپلز پارٹی پھر سے ملک کی سب سے بڑی جماعت بنے گی۔ نوائے وقت نے پیپلز پارٹی کے دیرینہ نظریاتی کارکن الطاف حسن قریشی سے اس حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا یہ بات سچ ہے کہ اقتدار کے پانچ سال میں کارکنوں کو اقتدار اور پارٹی سے دور رکھا گیا جس کا نتیجہ الیکشن کے دوران نظر آ گیا۔ پیپلز پارٹی کا کارکن پارٹی نہیں چھوڑتا مگر گھر بیٹھ جاتا ہے اور الیکشن میں بھی یہی ہوا۔ الطاف قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بارہا صدر زرداری سے بھی بھرے اجلاسوں میں کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں ہی اقتدار ملنے کے بعد حکومت چلاتی ہیں مگر یہاں الٹ ہوا اور ایسے حکومتی عہدیداروں سے پارٹی چلانے کی کوشش کی گئی جن کو پیپلز پارٹی کا کارکن پسند ہی نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی منہ کے بل گری ہے مگر اسے گر کر سنبھلنا بھی آتا ہے۔ وقت آنے والا ہے چیزیں پھر تبدیل ہوں گی۔ کارکن اب بھی پارٹی کے ساتھ ہے، زرداری کو آنے دیں پارٹی کو آخر کار پارٹی کے کارکنوں نے ہی چلانا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر رانا آفتاب احمد کا کہنا تھا کہ آصف زرداری جب پارٹی کو مکمل طور پر سنبھالیں گے تو فضا ہی بدل جائے گی۔ صدر کے طور پر وہ پارٹی کو وقت نہیں دے سکے، ان کے منصب کے جو تقاضے تھے وہ راہ میں حائل رہے مگر انہیں یہ ضرور پتہ چل گیا ہے کہ کون پارٹی کے ساتھ ہے اور کون اقتدار کے ساتھ ہے۔ میاں منظور وٹو کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محترمہ کی زندگی میں تو منظور وٹو نے پارٹی کو نقصان پہنچایا، اسی وجہ سے محترمہ نے انکی وزارت اعلیٰ ختم کی تھی۔ اب ان کو ہی اگر پنجاب کا صدر بنا دیا جائے گا تو پھر یہی حال ہوگا۔ پارٹی کارکن نے تو ان کو آج تک دل سے قبول نہیں کیا ویسے بھی وٹو بتائیں وہ اپنے کس پرانے ساتھی کو پارٹی میں شامل کر سکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نظریاتی جماعت ہے، زرداری ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو ہمیشہ پارٹی کے ساتھ رہے اور ان کو دور رکھیں جنہوں نے اقتدار میں کرپشن کی تو پارٹی بالکل اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو گی۔ پارٹی کی ایک جیالی رہنما ساجدہ میر کا کہنا تھا کہ پارٹی کے قبضہ گروپ سے پارٹی آزاد ہو جائے گی تو پارٹی پھر سے نمبر ون ہو جائے گی۔ بلاول بھٹو کو اب پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنی چاہئے۔ پارٹی کارکنوں اور رہنماﺅں کے خیالات اپنی جگہ مگر دوسری جماعتوں کے لوگ بھی صدر زرداری کی صدارت کا عرصہ ختم ہونے اور انکی طرف سے پارٹی کو فعال بنانے کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد آصف زرداری پارٹی میں بڑی تبدیلیاں لانے والے ہیں۔ شکست خوردہ عناصر کی جگہ پر پارٹی کے ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے گا جن کو پارٹی کارکن پسند کرتے ہیں۔