ناامید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!

Aug 19, 2014

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

گزشتہ کالم کی طرح یہ تحریر بھی میں ہنگامی حالات میں لکھ رہا ہوں۔ گزشتہ ہفتے لاہور انتظامیہ نے علاقے کو بند کر رکھا تھا اور آج اسلام آباد پولیس نے اس مقام کو چاروں طرف سے بند کر رکھا ہے جہاں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شرکاء نے دھرنا دے رکھا ہے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کی شخصیات میں بہت سے پہلو مماثل ہیں اور بہت سے مختلف ہیں مگر اسلام آباد کے دھرنے میں دونوں حکومت سے سخت مطالبات کر رہے ہیں اس لئے حکومتی عہدیداروں اور خصوصاً شریف برادران پر دونوں نے بے پناہ دبائو بڑھا رکھا ہے۔ دونوں طرف کے شرکاء تبدیلی کے خواب سجا کر دور دراز علاقوں سے آئے ہیں‘ لیکن اگر حکومتی ایوانوں کی بے حسی اور عدم دلچسپی اسی طرح برقرار رہی تو یہ بے چارے غریب اور مخلص کارکنان اپنی اپنی قیادتوں سے مایوس بھی ہو سکتے ہیں۔ مجھے آج یہاں تیسرا روز ہے۔ میں بہت سے عوام و خواص سے مل چکا ہوں۔ یہ لوگ تعداد میں تو پاکستانی عوام کی بھرپور نمائندگی نہیں کرتے‘ مگر احساسات اور جذبات میں ان کی سوچ و فکراور شعور انقلاب قابلِ ستائش ہے خصوصاً عوامی تحریک کے متحمل مزاج مذہبی شرساری سے پس لوگ مقامی نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ دوسری مرتبہ اسلام آباد دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں اس لئے تجربہ کار اور مستقل مزاج نظر آرہے ہیں۔ ان کے برعکسPTI کے لوگ مضطرب بھی ہیں اور منتشر بھی۔ یہ لوگ اسی وقت جلسہ گاہ کو سجاتے ہیں جب ان کا کپتان خطاب کرنے آتا ہے۔ APT کے ہزاروںخواتین و حضرات جم کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔ گزشتہ مارچ میں ان کی آزمائش سردی نے لی تھی جبکہ اس مرتبہ دھوپ اور گرمی ان کے صبر و تحمل کا امتحان لے رہی ہے۔ میں انقلاب مارچ میں ایک ایسے کارکن سے ملا جو امریکہ کی ریاست Madory میں ڈاکٹر ہیں۔ کہاں ایک خوبصورت علاقے میں کنالوں پر پھیلا ہوا اپنا ذاتی مکان چھوڑ کر آج تیسرے روز یہ آبپارہ کی دکان کے صحن میں بستر کے بغیر سو رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد دن رات فری ڈسپنسری میں شرکاء مارچ کے علاج معالجہ کر رہے ہیں حالانکہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ان کے عزیزواقارب کی شاندار کوٹھیاں موجود ہیں۔ اسی طرح یورپ سے آئے ہوئے علامہ نثار احمد سلمانی تمام تر سہولتوں کو ترک کرکے ایک چادر پر اپنے شب و روز گزار رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سینکڑوں نوجوان اور خواتین اس دھرنے میں شریک ہیں۔ ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے ہم تو پاکستان رہنے کیلئے واپس نہیں آئیں گے مگر ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں ہمارے آبائی وطن کو عزت مل جائے۔ یہ ایک آزاد اور فلاحی ریاست بن جائے تاکہ ہم فخر کے ساتھ دوستوں کو بتا سکیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہمیں اس وقت بہت ذہنی دبائو برداشت کرنا پڑتا ہے جب ہمارے ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کی خبریں وہاں کی پریس اچھالتی ہے۔ میری ملاقات سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر سے بھی ہوئی‘ جو انقلاب مارچ میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے ہمراہ سخت حصار سے نکل کر عازم سفر ہوئے۔ پوچھنے پر کہنے لگے ساری زندگی سیاست میں گزاری ہے مگر ان کارکنوں کے جذبوں کا عالم ہی کچھ اور ہے۔ بہت سی خواتین شرکاء سخت موسم میں اس لئے بیٹھی ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں ان محرومیوں سے نجات پا سکیں جن میں انہوں نے زندگی گزاری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں کا جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل آنا اور تبدیلی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا انقلاب کا آغاز ہے۔
آخر میں اس دھرنے کی بدقسمتی کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا۔ عمران خان نے گزشتہ روز خطاب سے قبل کہا کہ یہ ان کی زندگی کا ہم ترین خطاب ہوگا۔ پوری دنیا خصوصی طورپر متوجہ ہوئی کہ خان آج کوئی انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے مگر جب انہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو پوری دنیا میں اس کے چاہنے والوں سمیت کارکنوں کی اکثریت گہری مایوسی میں چلی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ سول نافرمانی کا آغاز تو تبدیلی کیلئے کوئی کارگر نسخہ نہیں۔ بہت سے شرکاء کہہ رہے تھے بجلی کے بلز نہ دینا کونسی نئی بات ہے۔ فاٹا وزیرستان اور کراچی میں لوگ پہلے سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی نسبت ڈاکٹر قادری کا خطاب علمی تحقیق اور بھرپور فکری اور تاریخی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انہوں نے دس نکاتی چارٹر کی تشریح میں موجودہ آپریشن اور آج کی حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں اتارا ہے۔ ان سے لوگوں کو بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ان کی علمیت‘ خطابت اور ذہانت و جرأت کی اپنے پرائے تعریف کرتے ہیں۔ ان کی صدائے انقلاب پر حکومت اور عوام کب کان دھریں گے؟ اور وہ اس انقلاب مارچ کو کیسے سمیٹتے ہیں‘ ان سوالوں کا جواب آئندہ ایک دو روز میں مل جائے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک اس ملک کو تباہ کن خانہ جنگی اور غربت و افلاس کی آفتوں سے محفوظ رکھے۔ ان دونوں قائدین کی خدمت میں اقبال کا یہ پیغام پیش ہے …؎
ناامید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ

مزیدخبریں